— فوٹو: ڈان نیوز
حکومت و علما و مشائخ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ’ملک کسی قسم کی بدامنی کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لیے مسئلے کا فوری اور پرامن انداز میں حل چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ختم نبوت سے متعلق کسی قسم کا شک نہیں ہونا چاہیے، ختم نبوت ﷺ پر قانون میں سقم 2002 میں پیدا کیا گیا تھا جسے اب دور کردیا گیا ہے اور قانون سازی سے ختم نبوت ﷺ پر قانون مستقل بنیادوں پر قائم کردیا گیا ہے۔‘
اس موقع پر وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے اجلاس کے اعلامیے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’عقیدہ ختم نبوت ہمارے دین کی اساس ہے جس میں کسی قسم کی کوتاہی کی گنجائش نہیں، اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ راجہ ظفرالحق کی کمیٹی کی سفارشات اور غلطی کے ذمہ داروں کا نام منظر عام پر لائے جائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت اور دھرنے والے افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں، اجلاس نے حکومت پر زور دیا کہ طاقت کے استعمال سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، علما کے اعلامیے پر عمل کیا جائے گا جبکہ مختلف مسالک کی نمایندہ کمیٹی بنائی جائے جو اس مسئلے کا جامع حل پیش کرے۔‘
اعلامیہ میں تحریک لبیک کی قیادت سے دھرنا ختم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ مسئلہ پرامن طریقے سے حل کرے۔
گذشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے میں موجود شرکاء سے ایک مرتبہ پھر دھرنا ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضلعی انتظامیہ کو فیض آباد انٹر چینج پر موجود مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو ہٹانے کا حکم جاری کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو 24 گھنٹوں کے اندر ہی دھرنے کو ختم کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم عدالت کی جانب سے دی گئی مہلت کا وقت ختم ہونے کے بعد فیض آباد انٹرچینج کی صورت حال میں کافی تناؤ پیدا ہوا جبکہ وزیرداخلہ احسن اقبال کے حکم پر آپریشن کو 24 گھنٹوں کے لیے مؤخر کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: 'معاملے کا حل پرامن طریقے سے نکل آئے گا'
احسن اقبال نے آپریشن کو مؤخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحفظ ختم نبوت قانون پاس ہونا پارلیمنٹ کا تاریخی کارنامہ ہے اور قیامت تک کوئی اس میں تبدیلی نہیں لا سکے گا اس لیے اب دھرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔
خیال رہے کہ سنی تحریک اور تحریک لبیک پاکستان کے سیکڑوں رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر گذشتہ دو ہفتوں سے دھرنا دے رکھا ہے۔
دھرنے میں شامل مذہبی جماعتوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ حال ہی میں ختم نبوت کے حوالے سے انتخابات کے اُمید وار کے حلف نامے میں کی جانے والی تبدیلی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹائیں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں 50 لاکھ لوگ مقیم ہیں جن میں سے تقریباً 5 لاکھ کے قریب افراد روزانہ جڑواں شہروں کے 16 داخلی اور خارجی راستوں کو استعمال کرتے ہیں۔
راولپنڈی کے مقامیوں کی بڑی تعداد روزانہ مختلف وجوہات کی بنا پر اسلام آباد کا سفر کرتی ہے، کچھ لوگ تعلیم جبکہ کچھ لوگ روزگار کے لیے وفاقی دارالحکومت پہنچتے ہیں، اس ضمن میں انہیں اسلام آباد ہائی وے کا روٹ استعمال کرنا ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں دھرنا یا احتجاجی مظاہرہ کیا جائے تو انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت کو کنٹینرز لگا کر سیل کردیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: ضلعی انتظامیہ کو مظاہرین کو ہٹانے کی ہدایت
مذہبی جماعت کی جانب سے دیے جانے والے حالیہ دھرنے میں اب تک ایک بچے کی ہسپتال نہ پہنچے کے باعث ہلاکت ہوچکی ہے، جاں بحق بچے کے والدین نے مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تاہم ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
سٹرک بند کر کے مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح احکامات موجود ہیں کہ شہریوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے کسی بھی شخص یا تنظیم کو سڑک بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں جو الیکشن ایکٹ 2017 کے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوگئی ہے۔