اسلام آباد دھرنا: مظاہرین کے خلاف آپریشن 24 گھنٹے کے لیے مؤخر
اسلام آباد: وزیر داخلہ احسن اقبال نے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت کی جانب سے دیئے گئے دھرنے کے شرکاء کے خلاف کارروائی کو 24 گھنٹوں تک مؤخر کرنے کی ہدایت جاری کردی۔
وفاقی وزیر داخلہ نے مذہبی جماعت کے رہنما سے اپیل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر عوام کو تکلیف دینے اور خون ریزی سے گریز کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی حکم پر عمل کرنا قانونی تقاضہ ہے لیکن کوشش کی جارہی ہے کہ پُرامن طریقے سے معاملات طے پائے جائیں۔
احسن اقبال نے انتظامیہ کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن کو 24 گھنٹے کے لیے مؤخر کیا جائے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو ہدایات کیں تھیں کہ پُرامن طریقے سے یا پھر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج کو مظاہرین سے خالی کرایا جائے۔
تاہم آج صبح سویرے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے اسلام آباد سمیت دیگر صوبوں سے پولیس، ایف سی اور رینجرز اہلکاروں کی بڑی تعداد دھرنے کے مقام پر پہنچ گئی تھی جبکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی بھی نافذ کردی گئی تھی۔
پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ 3 اطراف سے پولیس نے مظاہرین کو گھیر رکھا ہے جبکہ وزارتِ داخلہ اور سیکرٹری داخلہ کے احکامات ملتے ہی آپریشن کا آغاز کردیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: ضلعی انتظامیہ کو مظاہرین کو ہٹانے کی ہدایت
خیال رہے کہ آج بھی دھرنے میں مظاہرین کو مذاکرات کی پیش کش کی گئی تھی تاہم مذاکرات نہ ہونے کے باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے آپریشن کی تیاری کی گئی تھی۔
تاہم ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اسلام آباد نے عدالت کو بتایا تھا کہ انتظامیہ کو آپریشن کے لیے 3 سے 4 گھنٹوں کا وقت درکار ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد انٹر چینج پر جاری دھرنا ختم کروانے کے احکامات پر عمل درآمد کے لیے اعلی سطح کا اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 'تنبیہ کے باوجود رات 10 بجے تک اگر فیض آباد خالی نہ ہوا تو پھر عدالت کے احکامات کی روشنی میں آپریشن ہوگا۔
ضلعی انتظامیہ کے ذرائع نے بتایا تھا کہ دھرنے کے شرکاء کے خلاف آپریشن رات میں کرنا ممکن نہیں ہوسکتا جبکہ یہ 18 نومبر کی صبح ہی متوقع ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین میں ختمِ نبوت کی شق کو مبینہ طور پر تبدیل کرنے والے ذمہ داروں کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو فیض آباد انٹر چینج جاری اپنا دھرنا فوری ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کی مذہبی جماعتوں کو دھرنا ختم کرنے کی ہدایت
واضح رہے کہ رواں ہفتے تحریک لبیک پاکستان کے مجلسِ شوریٰ کے رکن جواد کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ختمِ نبوت سے متعلق آئینی ترامیم کے ذمہ داروں کو سزا دلانے اور معاملے کی تحقیقات پر راجہ ظفر اللہ حق کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے لیے درخواست جمع کرائی گئی تھی۔
مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز نے دھرنے کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب معاملہ عدالت میں آگیا ہے تو خدا کا خوف کریں، بزرگ، بچے، ملازمین اور طالب علم دھرنے سے متاثر ہو رہے ہیں، دھرنا ختم کریں تاکہ عوام کی مشکلات ختم ہوں، بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی مزید سماعت 29 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی تھی۔
خیال رہے کہ سنی تحریک اور تحریک لبیک پاکستان یا تحریک لبیک یارسول اللہ پاکستان کے سینکڑوں رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر گذشتہ ایک ہفتے سے دھرنا دے رکھا ہے۔
دھرنے میں شامل دونوں مذہبی جماعتوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ حال ہی میں ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے میں کی جانے والی تبدیلی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے ہوئے معطل کرے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں 50 لاکھ لوگ مقیم ہیں جن میں سے تقریباً 5 لاکھ کے قریب افراد روزانہ جڑواں شہروں کے 16 داخلی اور خارجی راستوں کو استعمال کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد: 'مظاہرین سخت نتائج کے لیے خبردار ہوجائیں'
راولپنڈی کے مقامیوں کی بڑی تعداد روزانہ مختلف وجوہات کی بنا پر اسلام آباد کا سفر کرتی ہے، کچھ لوگ تعلیم جبکہ کچھ لوگ روزگار کے لیے وفاقی دارالحکومت پہنچتے ہیں، اس ضمن میں انہیں اسلام آباد ہائی وے کا روٹ استعمال کرنا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں دھرنا یا احتجاجی مظاہرہ کیا جائے تو انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت کو کنٹینرز لگا کر سیل کردیا جاتا ہے۔
مذہبی جماعت کی جانب سے دیے جانے والے حالیہ دھرنے میں اب تک ایک بچے کی ہسپتال نہ پہنچے کے باعث ہلاکت ہوچکی ہے، جاں بحق بچے کے والدین نے مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تاہم ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
سٹرک بند کر کے مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح احکامات موجود ہیں کہ شہریوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے کسی بھی شخص یا تنظیم کو سڑک بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔