دنیا

گرفتار کھرب پتی شہزادے کے دنیا بھر میں موجود اثاثوں کی تفصیلات

سعودی شہزادے کا شمار دنیا کی ابتدائی 50 امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے اُن کے کل اثاثہ جات کی مالیت 19 کھرب ڈالر ہے، رپورٹ

ریاض: سعودی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ اینٹی کرپشن کمیٹی کے ہاتھوں مبینہ طور پر گرفتار ہونے والے کھرب پتی شہزادے الولید بن طلال کی بین الاقوامی کمپنیوں میں خفیہ سرمایہ کاری کی تفصیلات سامنے آگئیں۔

شہزادے محمد بن سلمان کی ہدایت پر بننے والی اینٹی کرپشن کمیٹی نے الولید کو صحرا میں تفریح کے لیے لگائے جانے والے خیمے سے گرفتار کیا مگر سعودی حکام نے ابھی تک اُن کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی۔

بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق کرپشن کے الزام میں گرفتار ہونے والے سعودی شہزادے کا شمار دنیا کی ابتدائی 50 امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے اُن کے کل اثاثہ جات کی مالیت 19ارب ڈالر ہے۔

بلوم برگ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اثاثوں کی تفصیل میں الولید کی مختلف کمپنیوں کی لین دن اور سرمایہ کاری کے ساتھ بینفشری تفصیلات بھی موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: کرپشن کے الزام میں کھرپ پتی سعودی شہزادے سمیت 11 گرفتار

رپورٹ کے مطابق شہزادے نے نامور کمپنیز جیسے ایپل، سٹی گروپ وغیرہ میں سرمایہ کاری کررکھی ہے، اُن کے اثاثہ جات کی مالیت کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 2007 میں اپنا ذاتی طیارہ اے 380 خریدنے اور پرائیوٹ ہوائی اڈہ بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔

فوربس میگزین کی فہرست میں نام صحیح جگہ نہ آنے پر سعودی شہزادے نے انتظامیہ کے خلاف قانونی مقدمہ بھی دائر کیا تھا جو دو سال بعد 2015 میں حل ہوا۔

واضح ہے کہ الولید بن طلال نے صدارتی انتخابات کے دوران ٹرمپ پر شدید تنقید کرتے ہوئے امریکا میں موجود اپنے اثاثہ جات کو فروخت کردیا تھا۔

سعودی اٹارنی جنرل شیخ سعود المجیب نے حالیہ گرفتاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’قانون اور انصاف کے لیے امیر اور طاقت ور شخص کی تمیز نہیں کی جائے گی بلکہ کرپشن کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے گی‘۔

حراست میں لیے جانے والے سعودی شہزادے نے مملکت کی 95 فیصد گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے علاوہ حصص مارکیٹ میں بھی 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کی گرفتاری کے بعد اسٹاک ایکسچینج کا انڈیکس تیزی سے نیچے آیا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی ولی عہد کا سعودیہ کو 'ماڈریٹ اسلامی ریاست' بنانے کا عزم

الولید بن طلال کی کمپنی کے ترجمان نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ شہزادے کے اثاثہ جات کی تفصیلات پہلے ہی حکومت کے پاس موجود ہیں انہوں نے بینکوں اور دیگر نجی کمپنیز میں سرمایہ کاری کررکھی ہے، جو حکومت کو سالانہ ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتی ہیں۔

سرمایہ کاری کی تفصیل

بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق سٹی گروپ کا قیام 1991 میں عمل میں آیا اور اسے 2009-2008 کے درمیان مالی خسارے کے دوران بڑی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کے بعد کمپنی کو بند کرنا پڑا تاہم سعودی شہزادے نے سٹی گروپ کی سربراہی سنبھالی اور رواں برس اس نے دوبارہ کاروبار کا آغاز کیا۔

سائنس ٹیکنالوجی کی انڈسٹری میں سرمایہ کاری

شیخ الولید بن طلال نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر 2011 میں 30 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی تاہم اُن کے ٹوئٹر میں موجودہ حصص 4.9 فیصد ہیں۔

سعودی شہزادے کے پاس موبائل فون کی معروف کمپنی ایپل کے 6 ارب 23 کروڑ حصص موجود ہیں، انہوں نے 1997 میں 11 کروڑ 54 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی بعد ازاں انہوں نے لیفٹ نامی کمپنی میں سرمایہ کاری کی اور 247 ارب 7 کروڑ ڈالر کے حصص خریدے جس میں سے کچھ حصہ فروخت کیا جاچکا ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کے شہزادے الولید بن طلال کے امریکی میگزین فوربز پر الزامات

ٹیکس گوشواروں کے مطابق شیخ الولید نے میڈیا انڈسٹری میں بھی سرمایہ کاری کی انہوں نے 2015 میں روپرٹ مرچڈوچ سے 3 کروڑ 97 لاکھ ڈالر کے حصص خریدے۔

الولید نے بڑھتے ہوئی آن لائن شاپنگ کے رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے ای کامرس انڈسٹری میں بھی خوب سرمایہ کاری کی، انہوں نے چینی کمپنی جے ڈی ڈاٹ کام کے ساتھ 2013 میں معاہدہ کیا اور 400 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی، جسے بعد ازاں بڑھا کر 700 ملین ڈالر تک لے جایا گیا۔

بلوم برگ کی شائع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی شہزادے نے ہوٹل انڈسٹری میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی، اُن کے امریکا، یورپ اور سعودیہ عرب میں لگثری ہوٹلز اور پلازہ موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی شہزادے کا 32 ارب ڈالرز عطیہ کرنے کا اعلان

شیخ الولید نے رئیل اسٹیٹ اور پیٹرکیمیکل انڈسٹری میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررکھی ہے، وہ عرب ممالک کے پانچویں بڑے بینک کے سب سے زیادہ حصص لینے والی شخصیت بھی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق انہوں نے حال ہی میں جدہ میں تعمیرات کے لیے قائم کی جانے والی کمپنی جدہ اکنامکس میں سرمایہ کاری کی جس نے حال ہی میں دنیا کا طویل ترین ہوٹل تیار کیا ہے۔


یہ خبر 6 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں بلوم برگ اور واشنگٹن پوسٹ کی مدد سے شائع ہوئی۔