دنیا

ترک فوجی بغاوت: قتل عام میں ملوث مزید 150 فوجیوں کا ٹرائل

ملزمان پر اقدام قتل، پارلیمنٹ اور حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام ہے، جرم ثابت ہونے پر انہیں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردگان کے خلاف ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے دوران استبول پل پر جھڑپوں میں سیکڑوں افراد کی ہلاکت میں ملوث مزید 150 سابق ترک فوجیوں کو عدالت میں ٹرائل کے لیے پیش کردیا گیا۔

خیال رہے کہ 15 جولائی 2016 میں ترک فوجیوں کے ایک گروپ نے بغاوت کرتے ہوئے ملک کے صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کے خاتمے اور اقتدار پر قبض ہونے کی کوشش کی تھی تاہم عوام اور وفادار فوج نے اس بغاوت کو ناکام بنادیا تھا۔

اس روز ترکی کے باسفورس پل پر رجب طیب اردگان کے حامیوں اور باغی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھی جس میں کئی شہری جاں بحق ہوئے، جس کے بعد حکومت نے جاں بحق ہونے والوں کی یاد میں پل کا نام تبدیل کرکے اسے ’شہدا‘ پل قرار دے دیا۔

یہ پڑھیں: ترکی میں ناکام فوجی بغاوت، 265 افراد ہلاک

اس واقعے کے دوران ایشیا اور یورپ کو ملانے والے ترکی کے مذکورہ پل پر جاں بحق ہونے والوں میں صدر رجب طیب اردگان کے مہم مینجر ایرول اولک اور ان کے 16 سالہ بیٹے عبداللہ طیب بھی شامل تھے جن پر باغی فوجیوں نے اندھا دھند فائرنگ کی۔

واضح رہے کہ ایرول اولک نے اپنے بیٹے کا نام اردگان اور سابقہ صدر عبداللہ گل سے متاثرہ ہو کر رکھا تھا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے عدالت میں ٹرائل کے لیے پیش کیے گئے فوجیوں میں 143 اہلکار 30 افسران شامل تھے۔

گرفتار سابق فوجیوں پر اقدام قتل، پارلیمنٹ اور حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام ہے۔

ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی ’اناتولو‘ کے مطابق ملزمان پر جرم ثابت ہونے کی صورت میں انہیں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ترکی میں فوجی بغاوت کے خلاف ہوں، فتح اللہ گولن

یاد رہے کہ گرفتار سابق فوجیوں کو ٹرائل کے لیے عدالت میں پیش کرنے کا مقصد بغاوت کا نشانہ بننے والے 249 جابحق افراد کو انصاف دلانا ہے، اور ان مقتولین میں ایک بھی باغی فوجی شامل نہیں۔

گذشتہ ہفتے ترکی کی ایک عدالت نے 40 لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جن پر رجب طیب اردگان کو ایگین ہوٹل میں قتل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد اردگان نے تمام حکومتی اداروں میں سے فتح اللہ گولن کے حامیوں کے خاتمے کا سلسلہ شروع کیا، جیسا کہ ترک حکومت فتح اللہ گولن کو ملک میں ہونے والی فوجی بغاوت کا اصل کردار تصور کرتی ہے۔

دوسری جانب پنسلوانیا میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے فتح اللہ گولن نے بغاوت میں ملوث ہونے کے تمام الزامات کو رد کیا۔

مزید پڑھیں : ترکی بغاوت: ملوث جنرل اسرائیل میں فوجی اتاشی تھے

ترک حکومت اب تک 50 ہزار لوگوں کو مبینہ طور پر فتح اللہ گولن کا حامی ہونے کے الزام میں گرفتار کرچکی ہے جبکہ ایک لاکھ 40 ہزار نجی اداروں کے ملازمین کو برطرف یا معطل کیا جاچکا ہے۔

ایک ہزار صفحات پر مشمل الزامات کی فہرست کے مطابق باسفورس پل پر باغی فوجیوں کی فائرنگ سے 34 شہری جاں بحق بلکہ بغاوت میں ملوث 7 منصوبہ ساز ہلاک ہوئے تھے۔