پاکستان

آمدن سے زائد اثاثے: اسحٰق ڈار کی احتساب عدالت میں تیسری پیشی

سماعت کے دوران استغاثہ کے پہلے گواہ کا بیان ریکارڈ کیا گیا، مزید سماعت 12 اکتوبر کو ہوگی۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں تیسری بار پیش ہوئے، جہاں استغاثہ کے پہلے گواہ کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحٰق ڈار کے خلاف دائر نیب ریفرنس کی سماعت کی اور وزیر خزانہ کی تاخیر سے عدالت آمد پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ مقررہ وقت پر عدالت پہنچیں۔

آج سماعت کے دوران ایڈووکیٹ خواجہ حارث نے اسحٰق ڈار کی وکالت کی جبکہ اس سے قبل ایڈووکیٹ امجد پرویز، اسحٰق ڈار کے وکیل تھے۔

عدالتی کارروائی کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا۔

اشتیاق علی نے بیان ریکارڈ کروایا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوالا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے۔

اس حوالے سے سماعت کے دوران اسحٰق ڈار نے بتایا کہ انہوں نے 2005 میں بینک الفلاح میں اکاؤنٹ کھولا تھا، جسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

سماعت کے بعد احتساب عدالت کے جج نے نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ کے سینئر عہدیدار شاہد عزیز کو بطور گواہ طلب کرتے ہوئے سماعت 12 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

اس سے قبل اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو ہونے والی گذشتہ سماعت میں فردم جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسحٰق ڈار کے اثاثوں میں بہت کم عرصے کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا اور وہ 90 لاکھ روپے سے 83 کروڑ 10 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔

جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے 28 جولائی کو پاناما پیپرز کیس میں اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے حوالے سے ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔

بعدازاں نیب نے اسحٰق ڈار کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا، جس کے دوران وزیرخزانہ کی آمدنی میں اضافے کے علاوہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ہارٹ سٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگز، کیونٹ ایٹن پلیس، کیونٹ سولین لمیٹڈ، کیونٹ لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ، کومبر انکارپوریشن اور کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی گئی۔

جس کے بعد ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا۔

اسحٰق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں دفعہ 14 سی لگائی گئی ہے، یہ دفعہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے، جس کی تصدیق ہونے کے بعد 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

ریفرنس دائر ہونے کے بعد احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کو 19 ستمبر کو طلب کیا تھا تاہم عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے تھے۔

بعدازاں وفاقی وزیر خزانہ 25 ستمبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت میں 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائے۔

دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اسحٰق ڈار سے وزارت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ملک کو مزید بدنام کرنے سے قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔