روہنگیا کے خلاف بدھ مت دہشت گردی ہورہی ہے، اردگان
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل وعام کا ذمہ دار سیکیورٹی فورسز کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمان اقلیت کے خلاف 'بدھ مت دہشت گردی' کو ہوا دے رہی ہیں.
طیب اردگان روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو مسلسل نمایاں کرتے رہے ہیں اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر یانگون حکومت کو ریاست رکھائن کے لوگوں کی 'نسل کشی' کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
استنبول میں ایک تقریر کے دوران ترک صدر نے عالمی برادری کو میانمار کی حکومت کے خلاف پابندیاں نہ لگانے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
اردگان کا کہنا تھا کہ 'وہاں مکمل طور پر نسل کشی ہورہی ہے'۔
مزید پڑھیں:میانمار: ایک ہفتے میں ہلاک روہنگیا افراد کی تعداد 400 سے زائد
میانمار کی نوبیل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی سے بھی ترک صدر نے بذریعہ فون رابطہ کیا تاہم ان کا موقف تھا کہ 'بدھ مت ہمیشہ سے امن کے پیامبر کے طور پر پیش آتے ہیں'۔
ترک صدر نے کہا کہ 'اس وقت میانمار میں مکمل طور پر بدھ مت دہشت گردی ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ اس کو یوگا سے کیسے تبدیل کیا جاسکتا، یہ ایک حقیقت ہے اور تمام انسانیت کو اس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے'۔
یاد رہے کہ میانمار کی ریاست رکھائن میں فوج کے کریک ڈاؤن کے باعث 4 لاکھ 30 ہزار روہنگیا مسلمانوں نے ہجرت کرکے بنگلہ دیش کی سرحد پر پناہ لے رکھی ہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ یہ ریاست میں اقلیت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھیں:میانمار،روہنگیا مسلمانوں پرتشدد بند کرے،سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ
ترک صدر طیب اردگان نے عالمی برادری کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دنیا 'اسلامی دہشت گردی' کی فوری مذمت کرتی ہے لیکن 'مسیحی دہشت گردی'، یہودی دہشت گردی' اور بدھ مت دہشت گردی' پر خاموش ہوجاتی ہے۔
خیال رہے کہ میانمار میں 2012 میں ہونے والے فرقہ وارانہ واقعات میں 200 افراد ہلاک اور ایک لاکھ 40 ہزار کے قریب افراد بے گھر ہوگئے تھے جس کے مقابلے میں تازہ واقعات بدترین ہیں۔
میانمار فوج کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ روہنگیا افراد کی جانب سے چھوٹے پیمانے پرحملے کیے جارہے ہیں جس کے بعد میانمار کی فوج کی جانب سے سخت کارروائی کی گئی۔
تاہم بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرنے والے لاکھوں روہنگیا مسلمان اس کے برعکس میانمار کی فوج کے ظلم وستم کی کہانیاں سنارہے ہیں جبکہ مذکورہ علاقوں میں عالمی میڈیا کو بھی رسائی نہیں دی گئی.