پاکستان

پاکستانی ڈراموں کی شہزادی ’حسینہ معین‘

لوگ بھی آج ان کے لکھے گئے ڈرامے یاد کرتے ہیں، جنہوں نے ناظرین میں مقبولیت حاصل کی

حسینہ معین بظاہر دکھنے میں پتلی اور کمزور نظر آتی ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ کامیابی کے لیے طویل جدوجہد نے انہیں کمزور کردیا ہے، مگر انہوں نے اپنا سفر چھوڑا نہیں۔

پاکستانی نژاد اسکاٹش ڈرامہ ڈائریکٹر تسلیمہ شیخ کی دعوت پر ایک ماہ کے دورے پر اسکاٹ لینڈ گئی تھیں، تسلیمہ شیخ اپنی پہلی فلم پروڈیوس کرنے جا رہی ہیں، جس کے لیے انہوں نے مشاورت اور حسینہ معین کو اپنے ڈائلاگ لکھنے کے لیے دعوت دی تھی، تاہم بعد ازاں اس فلم کی کہانی انڈین فلم رائیٹر کمد چوہدری نے لکھی۔

اسکاٹ لینڈ کے دورے کے بعد حسینہ معین اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں لٹریچر فیسٹیول اور کتابوں کی تعارفی تقاریب میں مصروف ہوگئیں۔

1941 میں پیدا ہونے والی حسینہ معین سے میں نے جب کراچی آرٹس کونسل میں ان کے دفتر میں ملاقات کی تھی، میں نے ان سے ان کی جانب سے لکھے گئے ڈراموں سے متعلق گفتگو کی۔

میں نے انہیں بتایا کہ’ آپ کے پاس یادوں کا بہت بڑا قیمتی خزانہ ہے، آپ کے تعلقات کچھ بہت ہی زیادہ دلچسپ شخصیات کے ساتھ ہیں، اور یقینا ٹیلی وژن کے لیے انتہائی کامیاب ڈراموں اور سیریلز کے لیے آپ کا نام جلد ہی سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا‘۔

وقت تیزی سے گزر گیا، لیکن کمزور یادداشت والے لوگ آج بھی ان کے لکھے گئے ڈرامے انتہائی تیزی سے یاد کرلیتے ہیں۔

حسینہ معین ہنس پڑیں، اور کہا ’آپ نے اپنے ہی سوال کا خود جواب ہی دے دیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: حسینہ معین پاکستانی ڈراموں کی بہترین رائٹر

حسینہ معین کام میں بہت مصروف رہتی ہیں، اس لیے انہیں اکثر باتیں یاد نہیں رہتیں۔

انہوں نے گفتگو کے دوران ایک سیریس نوٹ کا اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پرجوش انداز میں لکھنا شروع کیا، لیکن بدقسمتی سے وہ خوفناک بیماری میں مبتلا ہوگئیں، جس سے ان کا کام متاثر ہوا۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے کمٹمنٹ کے تحت لکھنا شروع کیا تھا، لیکن انہیں امید ہے کہ وہ جلد ہی ایک بار پھر قلم تھام کر لکھنا شروع کردیں گی۔

حسینہ معین نے کم عمری میں ہی بچوں کے ماہانہ میگزین ’بھائی جان‘ کے لیے کالم لکھنا شروع کیا تھا، جب وہ 20 برس کی ہوئیں تو انہوں نے معروف ہفتہ وار ریڈیو پروگرام ’اسٹوڈیو نمبر 9‘ کے طنز و مزاح کے چٹکلے لکھنا شروع کیے، اور چوں کہ ریڈیو ٹیلی وژن کا آڈیو وژوئل ورژن تھا، اس لیے انہوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

انہوں نے کامیڈی ڈرامہ ’عید مبارک‘ سے ڈیبیو شروع کیا، جس میں نیلو فر علیم اور شکیل نے کام کیا، ان کے طویل ڈرامے ’شہزوری‘ نے خوب کامیابی بٹوری، جو انہوں نے عصمت بیگ چغتائی کے ناول سے متاثر ہوکر اسی نام سے لکھا، اور اس میں بھی نیلو فر علیم نے مرکزی کردار ادا کیا۔

یہ وہ دن تھے جب پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کو پاکستانی لکھاریوں کی جانب سے حقیقی کہانیوں پر لکھے گئے ڈراموں پر زیادہ بھروسہ نہیں تھا، تاہم ’کرن کہانی‘ لکھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

اسکرپٹ ایڈیٹر افتخار عارف کی ان کے اسکرپٹ پر اچھی نظر تھی، اور انہیں اسکرپٹ پڑھ کر جھٹکا لگا، اور کہا کہ اسکرپٹ سے اس سیریل کی شاندار کامیابی ظاہر ہوتی ہے۔

ان کے معروف ٹی وی سیریلز ’زیر زبر پیش‘، ’ان کہی‘، ’دھوپ کنارے‘،’آہٹ‘، ’انکل عرفی‘،’پرچھائیاں‘ اور ’تنہائیاں‘ شامل ہیں۔

انہوں نے پروڈیوسرز کے لیے واہگہ بارڈر کے مسائل پر بھی ڈرامے اور سیریلز لکھے، جنہوں نے بھی شائقین سے واہ واہ بٹوری۔

میں نے ان سے کہا کہ میں ان کے کچھ ہموار اور بے تکی نقل کرنے والے کرداروں پر تنقیدی تبصرہ کروں جیسے ’تنہائیاں‘ کے قباچہ اور’انکل عرفی‘ میں جمشید انصاری کے کرداراور ان کی جانب سے بار بار بولے جانے والے جملے ’چاقو ہے میرے پاس‘ پر قلم کو تیز کرنا چاہئیے تھا۔

حسینہ معین نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہموار کرداروں میں کیا خرابی ہے؟ یہاں تک کہ چارلس ڈکنیس جیسے ناول نگاروں نے بھی بے تکی نقل اتارنے والے کردار تخلیق کیے ہیں، میرے ڈراموں پر واپس آتے ہیں، اور ان کرداروں پر بات کرتے ہیں، جو ڈرامے کے پلاٹ کو متاثر نہیں کرتے، میرا خیال ہے آپ کی تنقید بے جا ہے۔

مزید پڑھیں: ہر دور میں مقبول پاکستانی لیجنڈ اداکار

میں نے ان سے پوچھا کیا آپ نے کوئی ایسا سیریل یا انفرادی ڈرامہ لکھا ہے جس میں انہیں زیادہ چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہو؟ کیا انہیں شارٹ اسٹوریز اور ناول لکھنا پسند ہے؟ اور ان میں سے کس پر عمل کرنا زیادہ مشکل ہے؟۔

حسینہ معین نے کہا ’ ان تمام کی گرامر مختلف ہوتی ہے‘ ایک میں آپ کو حدود میں رہ کر مجموعی کہانی بیان کرنی پڑتی ہے، جب کہ دوسرے میں آپ کو تجربے کا استعمال کرتے ہوئے دور تک جانا پڑتا ہے، آپ کو اپنے ناظرین کے لیے اگلی قسط کے لیے اسے زیادہ دلچسپ بنانے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ جب مرینہ خان ’تنہائیاں‘ کا سیکوئل بنانے جا رہی تھیں تو آپ نے اعتراض کیوں کیا۔

حسینہ معین کا کہنا تھا کہ ’تنہائیاں‘ میگا ہٹ تھا، کیوں کہ اس کی ہدایات و پروڈیوسنگ شہزاد خلیل نے دی تھیں، اب آپ کو ان جیسا ڈائریکٹر کہاں ملتا ہے؟ مرینہ خان کے لیے میری نیک تمنائیں ہیں، اور وہ بہت اچھی ہیں، مگر ان کا موازنہ کبھی بھی مرحوم شہزاد خلیل سے نہیں کیا جا سکتا۔

میں نے ان سے پوچھا کہ تاریخ میں ماسٹر کرنے کے باوجود انہوں نے تاریخی سیریل کیوں نہیں لکھے؟

انہوں نے کہا کہ ’ناظرین کس طرح ایک نقلی بادشاہ کو گتے کا تاج پہنے ہوئے قبول کرتے ہیں؟’ہمارے محدود وسائل کی وجہ سے ٹی وی پروڈیوسرز اور فلم میکرز ان کے اسکرپٹ کے ساتھ انصاف نہیں کر پائیں گے۔

لیکن پھر بھی حسینہ معین کو پی ٹی وی کے سنہرے دور کی ڈرامہ نگار کہا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’شاید آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے محسن علی، شیریں خان، شہزاد خلیل، رعنا شیخ اور ظہیر خان جیسے ٹی وی پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کے لیے اسکرپٹ لکھ کر کتنا انجوائے کیا، وہ اپنے انداز سے حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’کیا آپ جانتے ہیں کہ جب ہم پی ٹی وی کے لیے تنہائیاں کر رہے تھے، وہ بیک وقت محسن علی اور شیریں خان کے ساتھ کام رہی تھی، اگروہ ایک کے لیے قسط لکھ رہی ہوتی تھی، تو دوسرا ایک قسط کی ریکارڈنگ کر رہا ہوتا تھا، وہ دونوں کو ایک ہفتے کا وقت دیا کرتی تھی۔

میں نے پوچھا کہ ایسا کرنے پر ان دونوں میں حسد کا جذبہ موجود تھا؟

حسینہ معین نے جواب دیا کہ’ شروع سے لے کر ہی ان دونوں میں مکمل باہمی اتفاق تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: ہر دور کے سب سے مقبول 20 پاکستانی ڈرامے

ایک نقطے پر وہ اصرار کرتی ہیں کہ وہ اپنے خواتین کرداروں کے لیے مکمل اعتماد کے ساتھ لکھتی ہیں، اور جب ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو اس پر ایکشن بھی لیتی ہیں، حال ہی میں انہوں نے ایک رپورٹر کو بتایا کہ ان کی تمام ہیروئنز ایک ہی طرح کی ہیں، دوسرے لفطوں میں ان کی ہیروئنز اپنی جوانی کے دنوں میں ہوتی ہیں۔

میں نے پوچھا کہ’ ان کی تمام ہیروئنز رومانٹک ہوتی ہیں، کیا وہ ہیروئنز ان کی ذاتی زندگی کے رومانس کو پیش کر رہی ہوتی ہیں؟

انہوں نے مسکرا کر کہا’ وہ ہمیشہ سے ہی رومانٹک تھیں، اور اب بھی ہیں، یہاں بہت ساری چیزیں رومانوی ہیں، جیسے قدرت میں خوبصورتی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ میں ان سے کیا نکلوانا چاہتا ہوں، یہ ٹھیک ہے کہ وہ ماضی میں کسی کے لیے نرمی رکھتی تھی، مگر یہ باتیں گزر گئیں، ماضی میں جھانکتے ہوئے وہ اس بات پر خوش ہوتی ہوں کہ شکر ہے بات شادی تک نہیں پہنچی۔

جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ماضی کی طرح اب مسلسل ڈرامے کیوں نہیں لکھتیں؟

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اب کمرشلزم ذیادہ ہوگیا ہے،ڈائریکٹرز کو سرمایہ کاری کرنے والوں کی جانب سے اپنی جاب برقرار رکھنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، اب میرٹ اور معیار پر ذیادہ توجہ نہیں دی جاتی، لیکن جب انہیں لائیک مائنڈڈ افراد مل جائیں گے تو وہ قلم اٹھاکر سیریل اور ڈرامہ لکھیں گی۔

ستر کی دہائی کی جانب واپس چلتے ہیں، جب حسینہ معین ایک ڈرامہ رائٹر کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں مصروف تھیں، اس وقت بھی وہ ٹی وی پروڈیوسرز کو مشورے دیا کرتی تھیں، مثال کے طورپر جب وہ ہینری جیمز کے ناول ’دی پورٹریٹ آف دی لیڈی‘ سے ماخوذ ڈرامہ ’پرچھائیاں‘ کر رہی تھیں تو انہوں نے اس ڈرامے کے مرکزی اداکاروں کے لیے ’ساحرہ‘ اور ’راحت کاظمی‘ کے لیے اصرار کیا۔

پی ٹی وی ہیڈ آفس کے سربراہ اسلم اظہر اور پروگرام انچارج آغا ناصر نے اس کی منظوری دی، شعیب منصور اور محسن علی کی ہدایت کردہ سیریل نے ناظرین میں بے حد پذیرائی حاصل کی۔

میں نے ان سے پوچھا کہ جب آپ کو ’حنا‘ فلم کے ڈائلاگ لکھنے کے لیے کہا گیا تو آپ نے راج کپور کو راجیو کپور کے بدلے اپنے بڑے بھائی رشی کپور کے کاسٹ کرنے کے لیے راضی کیا، کیوں کہ آپ کے خیال میں رشی کپور ذیادہ با صلاحیت تھے، اور آپ نے فلم کی مرکزی اداکارہ کے لیے زیبا بختیار کا نام بھی تجویز کیا، کیا سچ ہے؟

حسینہ معین نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’یہ سچ ہے‘، انہوں نے وضاحت کی کہ ان کے راج کپور کے ساتھ قابل قدر روابط تھے، جن پر لکھا جانا چاہیے تھا، لیکن ان کے تعلقات انہیں ہمیشہ یاد رہیں گے،’ دیر آید درست آید‘۔


یہ مضمون 24 ستمبر کے ڈان ای او ایس میگزین میں شائع ہوا