پاکستان

سول اور عسکری قیادت تمام اہم معاملات پر متحد ہے: شاہد خاقان عباسی

پاکستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کادعویٰ ایک رسیلی خبر ہےپھر بھی لوگ ہمارےموقف کو ہی صحیح سمجھتے ہیں، وزیراعظم
|

نیویارک: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کے اہم قومی امور کے حوالے سے سول اور عسکرسی قیادت میں کوئی اختلاف موجود نہیں۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے بعد پاکستانی ذرائع ابلاغ کو اجلاس کے دوران اور عالمی رہنماؤں کے ساتھ علیحدہ ملاقاتوں کے بارے میں بریف کیا۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’پاکستان میں اہم قومی مسائل پر سیاسی اور عسکری قیادت متحد اور ایک پیج پر ہے، ان میں کوئی اختلافات موجود نہیں جبکہ پوری قیادت ملک کے لیے مل کر کام کر رہی ہے۔‘

انہوں نے متنبہ کیا کہ جہاں انتشار نہ ہو وہاں جان بوجھ کر انتشار پیدا کروانا غلط عمل ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا کا پہلا دورہ: وزیر اعظم سے پوچھے گئے 6 مشکل سوالات

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کے لیے کوئی ’ڈو مور‘ نہیں ہے اور نہ ہی اجلاس میں ڈو مور کا مطالبہ سننے میں آیا۔

پاک-مریکا تعلقات میں اختلافات کو ختم کرنے کی غرض سے امریکی وفد کی ممکنہ طور پر پاکستان آمد کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ تجویز شدہ وفد کی تکنیکی تفصیلات، ملاقات کا ایجنڈا اور پاکستان کی امیدوں پر ابھی بات کرنا قبل از وقت ہوگا، دونوں ہی ممالک اس میں پیش رفت کے لیے کام کر رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ غیر رسمی ملاقات کے حوالے سے وزیراعظم نے بتایا کہ نائب امریکی صدر مائیک پینس کے ساتھ ملاقات کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں علیحدہ بلا کر 2 سے 3 منٹ تک بات چیت کی۔

کشمیر پر پاکستانی ڈوزیئر کے بعد اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ردِ عمل کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے پاس ان دستاویزات کا ردِعمل دینے کے لیے ایک طریقہ کار موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی ڈوزیئر 250 سے 300 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے شواہد اور تصاویر موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کی صورتحال پر پاک-امریکا مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق

ان کا مزید کنہا تھا کہ یہ ڈوزیئر عالمی رہنماؤں اور عالمی میڈیا کو مانوس کرے گا، تاہم ایسی چیزیں اپنا وقت لیتی ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردوں کی مبینہ پناہ گاہوں کے بارے میں عالمی طاقتوں کی جانب سے پاکستان کے موقف کو رد کر دینے کے سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ سب پاکستان کی پالیسی کی وجہ سے ہے تاہم پاکستان نے حقائق کی بنیاد پر اپنی پوزیشن واضح کردی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بری خبر بیچنا آسان ہے اور پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا دعویٰ ایک رسیلی خبر ہے لیکن پھر بھی لوگ پاکستان کے موقف کو صحیح سمجھتے ہیں۔‘

اس موقع پر وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے چین، روس اور دیگر عالمی طاقتوں نے پاکستان کے موقف پر مثبت ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان معاملے پر امریکا کے خدشات جلد ختم کر دیے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے ختم ہونا ضروری ہے، افغان صدر

وزیراعظم اور وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ منگل (19 ستمبر) صبح 11 بجے ملاقات شیڈول تھی لیکن امریکی صدر اس وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے جس کے باعث دونوں سربراہان نے اپنی ملاقات کو ملتوی کردیا تھا۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ انہوں نے افغان قومی سلامتی کے مشیر سے ملاقات کی جس میں سرحد پار دہشت گرد حملوں سمیت کئی اہم امور زیر بحث آئے جبکہ افغان صدر اور پاکستانی وزیراعظم کی ملاقات جلد منعقد ہوگی۔

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں ایک حکومت ختم کی گئی اور وہ 4 دن میں واپس آگئی تو سیاسی عدم استحکام کہاں ہے بلکہ اس سے پاکستان میں جمہوریت کی طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران جس سے بھی میری ملاقات ہوئی انہوں نے پاکستان میں جمہوری عمل کی تعریف کی۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عدالتوں کا یہ اسٹینڈرڈ تمام لوگوں کے لیے یکساں ہو۔

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا اجلاس کے دوران کلبھوشن یادیو کا معاملہ نہیں اٹھایا گیا کیونکہ اس دورے کا مقصد دیگر مسائل پر توجہ مرکوز کرنا تھا۔

وزیراعظم نے افغانستان میں بھارت کے کردار کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں نئی دہلی کی سیاسی اور عسکری دخل اندازی پاکستان کو کسی صورت قابلِ قبول نہیں، بھارت کا خطے میں کوئی کردار نہیں۔


یہ خبر 23 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی