دنیا

اسلامی تعلیمات امن اور بھائی چارے کا حکم دیتی ہیں: خطبہ حج

مسلمان کسی بھی رنگ و نسل سےتعلق رکھتا ہو وہ پُر امن رہتا ہے اور کسی کے ساتھ بھی ظلم و زیادتی پر یقین نہیں رکھتا، خطبہ حج

مکہ المکرمہ: شیخ ڈاکٹر سعد بن ناصر الشتریٰ نے خطبہ حج دیتے ہوئے کہا کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور اسلامی تعلیمات دنیا بھر میں امن اور بھائی چارے کا حکم دیتی ہیں۔

سعودی عرب کے میدان عرفات میں قائم مسجد نمرہ میں شیخ ڈاکٹر سعد بن ناصر الشتریٰ نے خطبہ حج کے دوران فرمایا کہ ’اسلام نے برائی اور فحاشی کو حرام قرار دیا ہے، بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم اللہ کے احکامات کی پابندی کریں۔‘

1438 ہجری کے خطبہ حج کے دوران ان کا کہنا تھا کہ کسی کو رنگ و نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں جبکہ مسلمانوں کو اللہ کی عبادت ایسے کرنی چاہیے جیسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔

2016 کا خطبہ حج: 'دہشت گردی کا اسلام اور امت مسلمہ سے کوئی تعلق نہیں'

خطبے کے دوران انہوں نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کو امت کی ہدایت کیلئے دنیا میں بھیجا۔

ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام امتوں کی رہنمائی کے لیے انبیا علیہ السلام بھیجے اور ہر نبی علیہ السلام نے اپنے امتیوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرنے کی تعلیم دی۔

خطبہ حج کے دوران شیخ ڈاکٹر سعد بن ناصر نے کہا کہ مسلمان چاہے کسی بھی ملک، رنگ اور نسل سے تعلق رکھتا ہو وہ پُر امن رہتا ہے اور کسی کے ساتھ بھی ظلم و زیادتی پر یقین نہیں رکھتا بلکہ اسلامی تعلیمات نے دنیا بھر کے انسانوں میں بھائی چارا پیدا کیا۔

2015 کا خطبہ حج : 'مسلم ریاستوں پر حملہ کرنیوالوں کا اسلام سے تعلق نہیں‘

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’نماز اور صبر سے مدد حاصل کرو‘۔

شیخ ڈاکٹر سعد نے کہا کہ وہ اللہ سے دعا گو ہیں کہ مسلمانوں کو ان کا پہلا قبلہ ’بیت المقدس‘ واپس مل جائے۔

دنیا بھر کے مسلم ممالک کے حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے شیخ ڈاکٹر سعد بن ناصر الشتریٰ نے خطبے میں فرمایا کہ تمام مسلم حکمران اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔

2014 کا خطبہ حج: ’مسلم دنیا میں چلنے والی بعض تحریکیں انسانیت دشمن ہیں‘

مسلمانوں کو تقویٰ کی تعلیم دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نصیحت کرتا ہوں کہ مسلمان تقویٰ اختیار کریں کیونکہ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے متقی بندوں کو جنت میں داخل کرے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں خود کو اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہوں اور تمام مسلمان اللہ تعالیٰ سے ڈریں جس طرح اُس سے ڈرنے کا حق ہے۔‘

دنیا بھر کے 200 سے زائد ممالک اور خطوں سے آئے ہوئے لاکھوں عازمین حج میدان عرفات میں حج کے رکن اعظم وقوف عرفہ کیلئے میدان عرفات میں موجود ہیں۔

مناسک حج

مناسکِ حج کی ادائیگی کا سلسلہ 8 ذوالحج سے شروع ہوتا ہے جو 12 ذوالحج تک جاری رہتا ہے۔

8 ذوالحج کو عازمین مکہ مکرمہ سے منیٰ کی جانب سفر کرتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں۔

9 ذوالحج کو فجر کی نماز کے بعد عازمینِ حج منیٰ سے میدانِ عرفات کے لیے روانہ ہوتے ہیں، جہاں وقوفہ عرفہ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

عرفات میں غروبِ آفتاب تک قیام لازمی ہے اور اس کے بعد حجاج کرام مزدلفہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں، جہاں پر مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں اور رات بھر یہاں قیام لازم ہوتا ہے۔

2013 کا خطبہ حج : ’اسلام امن کی تعلیم دیتا ہے‘

10 ذوالحج قربانی کا دن ہوتا ہے اور عازمین ایک مرتبہ پھر مزدلفہ سے منیٰ آتے ہیں، جہاں قربانی سے قبل شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔

مزدلفہ سے منیٰ کا فاصلہ تقریباً نو کلو میٹر ہے اور یہاں پر عازمین مخصوص مناسک کی ادائیگی کرتے ہیں اور اس کے بعد حجاج کرام مکہ مکرمہ جاکر ایک طوافِ زیارت کرتے ہیں اور منیٰ واپس آجاتے ہیں۔

11 اور 12 ذوالحج کو تمام مناسک سے فارغ ہونے کے بعد عازمین ایک مرتبہ پھر مکہ مکرمہ جا کر مسجد الحرم میں الوداعی طواف کرتے ہیں۔

غلاف کعبہ کی تبدیلی

خیال رہے کہ اس سے قبل غلاف کعبہ تبدیل کیا گیا جو ہر سال قمری کلینڈر کے مطابق 9 ذوالحج کو تبدیل کیا جاتا ہے، جس کی تیاری میں خالص ریشم، سونے اور چاندی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق کعبہ کا غلاف خالص ریشم سے تیار کیا گیا جو کہ 657 مربع میٹر پر مشتمل ہے۔

غلاف کی تیاری میں 150 کلو سے زائد سونا اور چاندی استعمال کیا گیا۔

2012 کا خطبہ حج : ’اسلام جارحیت کی ممانعت اور امن کا درس دیتا ہے‘

اسلامی تاریخ میں پہلی بار فتح مکہ کی خوشی میں کعبے پر سیاہ غلاف چڑھایا گیا تھا۔

حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے تعمیر کعبہ کے ساتھ ‌غلاف کا بھی اہتمام کیا تھا، ظہور اسلام سے پہلے بھی غلاف کعبہ کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔

19 ویں اور 20 ویں صدی عیسوی کی شروعات تک غلاف مصر میں تیار ہوتا تھا، 1962ء میں غلاف کی تیاری کی سعادت پاکستان کے حصے میں بھی ‌آئی۔