—فائل فوٹو
1940 میں امرتسر میں جنم لینے والے سلطان بشیر الدین محمود کی شخصیت اگرچہ کئی حوالوں سے متنازع رہی, مگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں ان کی قابل قدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
انھوں نے 1960 میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں شمولیت اختیار کی اور ڈاکٹر منیر احمد خان کے ساتھ خدمات سر انجام دینے کے علاوہ کینپ نیوکلیئر پاور پلانٹ میں نیوکلیئر انجینئر کے طور پر بھی کام کیا۔
بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈاکٹر منیر نے انھیں یورینیم انرچمنٹ ڈویژن کا ڈائریکٹر مقرر کیا، مگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ شدید اختلافات کے بعد انھیں برطرف کرکے دوبارہ کینپ پاور پلانٹ بھیج دیا گیا۔
1980 میں سلطان بشیر محمود کو خوشاب ون پاور پلانٹ پراجیکٹ کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا، جہاں انھوں نے پلانٹ کا کولنٹ سسٹم بنانے میں بھی معاونت کی، وہ ایک برس تک نیوکلیئر پاور ڈویژن کے سربراہ رہے۔
مگر سن 2000 میں انٹیلی جنس ایجنسیز نے ان کی طالبان کے ساتھ غیرقانونی سرگرمیاں نوٹ کرتے ہوئے ان پر امریکا میں دہشت گردی کے حملے میں سہولت کار ہونے کا الزام عائد کیا، مگر بشیر محمود کا القاعدہ یا اسامہ بن لادن سے کوئی گہرا تعلق ثابت نہیں ہو سکا۔
تب سے یہ نامور سائنسدان اسلام آباد میں انتہائی خاموش زندگی بسر کرتے ہوئے اسلام اور سائنس پر کتابیں تحریر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر تسنیم شاہ ڈاکٹر تسنیم شاہ کا شمار کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز سے منسلک ان چنیدہ سائنسدانوں میں کیا جاتا ہے، جنھوں نے یورینیم افزودگی اور گیس سینٹری فیوجز کی تیاری میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر جی ڈی عالم کی کافی عرصے تک معاونت کی۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے میتھمیٹکس میں ماسٹرز کے بعد ڈاکٹر تسنیم شاہ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا، ان کی بے پناہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسلام انھیں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن لے کر گئے، جہاں وہ کافی عرصے تک ڈاکٹر ریاضالدین کے ساتھ کام کرتی رہیں۔
1975 میں ڈاکٹر تسنیم شاہ نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کا گیس سینٹری فیوجز سے متعلق خفیہ پراجیکٹ جوائن کرتے ہوئے فلوڈ ڈائنامکس ڈویژن قائم کیا، تاکہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں حائل پیچیدہ حسابی ماڈلز کو حل کیا جاسکے۔
ڈاکٹر تسنیم شاہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام میں بھی معاونت کی اور غوری میزائل سیریز کے تھرمل سسٹم کو بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا، راکٹ سائنسز پران کی تحقیقات کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔
ڈاکٹر تسنیم نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ڈپارٹمنٹ آف کرپٹالوجی کے قیام کے علاوہ پاکستان کی پہلی پرائیوٹ سیکٹر آئی ٹی یونیورسٹی بھی قائم کی، ان کی خدمات کے بدلے حکومت پاکستان نے انھیں ستارہ امتیاز، تمغہ امتیاز اور چاغی میڈل سے نوازا۔
ڈاکٹر تسنیم شاہ کو 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے وقت سائنسدانوں کی ٹیم میں شامل ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
ڈاکٹر انور علی ڈاکٹر انور علی 1943 کو ضلع ہوشیارپور (برٹش انڈیا ) میں پیدا ہوئے، ان کا شمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر منیر احمد خان کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا ہے۔
مانچسٹر یونیورسٹی سے نیوکلیئر فزکس میں ماسٹرز کے بعد وہ اسکالر شپ پر پی ایچ ڈی کر رہے تھے کہ اس دوران بھارت نے اچانک ایٹمی دھماکا کردیا، ڈاکٹر انور اپنا پی ایچ ڈی ادھورا چھوڑ کر وطن واپس آئے اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں نیوکلیئر انجینئرنگ ڈویژن سے منسلک ہوگئے، جہاں ڈائریکٹر سلطان بشیر محمود کی یورینیم افزودگی میں معاونت کرتے رہے۔
1978 میں انور علی، ڈاکٹر جی ڈی عالم کی سربراہی میں یورینیم کے آئسوٹوپس علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے، جس نے پہلی ایٹمی ڈیوائس بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا، پی اے ای سی ٹرانسفر کے بعد ڈاکٹر انور علی 1985 میں میزائل پروگرام سے منسلک ہوئے اور میزائل سسٹم کی الیکٹرانک پروٹیکشن ڈیوائس تیار کی۔
وہ مسلسل 3 برس تک پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چئیرمین رہے اور نیشنل ڈیفنس کمپلیکس کے قیام میں دیگر سائنسدانوں کی مدد بھی کی، ان کے 50 سے زائد ریسرچ پیرز پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی گئی، جو وہ وطن کی محبت میں ادھورا چھوڑ آئے تھے۔
ڈاکٹر غلام دستگیر عالم ڈاکٹر غلام دستگیر عالم 1937 کو ہریانہ ( برٹش انڈیا ) میں پیدا ہوئے, ان کی ذہانت اور کارکردگی کو سراہتے ہوئے انھیں ڈاکٹر منیر احمد خان نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا ذہین ترین دماغ قرار دیا, جس کے لیے بڑے سے بڑا مسئلہ حل کرنا کبھی مشکل نہ رہا تھا۔
وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کے شاگرد بھی رہے، ڈاکٹر عالم یونیورسٹی آف لندن سے کوانٹم فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر فزکس سے منسلک ہوئے اور اس دوران متعدد قابل ذکر ریسرچ پیپر بھی تحریر کیے جو مؤقر سائنسی جرائد میں شائع ہوتے رہے۔
1970 کے اوائل میں وطن واپسی کے بعد ڈاکٹر عالم نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنسز میں شمولیت اختیار کی اور تھوریٹیکل فزکسٹ گروپ کی معاونت کرتے ہوئے یورینیم آئسوٹوپس کو الگ کرنے کی مشین بنائی۔
ان کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ شدید اختلافات رہے، جس کے باعث وہ پی اے ای سی میں ڈاکٹر تسنیم شاہ کی ٹیم میں شامل ہوگئے، جو اُس وقت گیس سینٹری فیوجز پر تحقیقات میں مصروف تھیں۔ آپس کے شدید اختلافات کے باوجود ان نامور سائنسدانوں کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ انھوں نے ملکی سالمیت پر کسی طور کوئی سمجھوتہ گوارا نہیں کیا اور 10 برس کی ریکارڈ مدت میں وہ کارنامے سرانجام دیے جو محدود وسائل اور ناکافی تکنیکی سہولیات کے باعث بظاہر ناممکن نظر آتے تھے اور ان میں ڈاکٹر جی ڈی عالم نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔
وہ کافی عرصے تک قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے، حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر عالم کو ہلال امتیاز سے نوازا۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند —فائل فوٹو
ڈاکٹر ثمر مبارک مند 1941 میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے, انھیں دوران تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور میں ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا۔
ڈاکٹر ثمر مبارک نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی کیا اور وطن واپس لوٹ کر پی اے ای سی میں شمولیت اختیار کی, اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی سے بھی وابستہ رہے۔
انہوں نے پاکستان کے میزائل پروگرام میں بھی ایک مؤثر کردار ادا کیا, ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’نیس کوم‘ نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن کا قیام ہے، جس نے پاکستان ڈیفنس اور میزائل پروگرام کے خدوخال تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
ایٹمی پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے انھیں ڈاکٹر منیر احمد خان نے فاسٹ نیوٹران فزیکل گروپ کا پہلا ڈائریکٹر مقرر کیا، ڈاکٹر ثمر مبارک نے 1998 کے ایٹمی دھماکے کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور کافی عرصے چاغی میں مقیم رہ کر ٹنل کی کھدائی کی ازخود نگرانی کی۔
وہ چاغی ون دھماکا کرنے والی سائنسدانوں کی ٹیم کے سربراہ تھے، جب کہ چاغی ٹو کی سربراہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کی، وہ تھرکول مائننگ پراجیکٹ سے بھی وابستہ رہے، ڈاکٹر ثمر کی گراں قدر خدمات کے بدلے میں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز، ہلال امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نوازا۔
ڈاکٹر اشفاق احمد 3 نومبر 1930 کو ضلع گورداسپور (برٹش انڈیا) میں پیدا ہونے والے مایہ ناز سائنسدان اور ماہر طبیعات ڈاکٹر اشفاق احمد نے ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کی سپر ویژن میں نیوکلیئر فزکس پر ماسٹرز تھیسس لکھ کر گولڈ میڈل حاصل کیا۔
کچھ عرصے تک نیل بوہر انسٹی ٹیوٹ اور دیگر مغربی اداروں میں درس و تدریس سے وابستہ رہنے کے بعد ڈاکٹر اشفاق احمد یوریپن آرگنائزیشن آف نیوکلیئر ریسرچ (سرن) میں سینئر ریسرچ سائنٹسٹ کے طور پر بھی ذمہ داریاں سر انجام دیتے رہے۔
انہوں نے 1970 میں وطن واپسی کے بعد پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنسز میں شمولیت اختیار کی اور ایٹم بم کی ڈیزائننگ میں معاونت کی، وہ پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی کے حصول کے زبردست حامی تھے، انہوں نے صنعتی مقاصد کے لیے حکومت پاکستان کے ایٹمی توانائی مشن میں بھی اہم ذمہ داریاں سر انجام دیں۔
نوے کی دہائی میں ان کی شب وروز کی کاوشوں سے یورپین ایسوسی ایشن سرن اور پی اے ای سی کے قریبی تعلقات قائم ہوئے اور 1997 میں انھوں نے سرن کے ساتھ پارٹیکل فزکس ڈیٹیکٹر کی اَپ گریڈیشن کا معاہدہ کیا۔
1998 میں ایٹمی دھماکوں کے وقت وہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی ٹیم کا حصہ تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد سے وہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے باعث بڑھتی ہوئی قدرتی آفات کی شرح جیسے مسائل کو حل کرنے میں سرگرم ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے گلوبل امپیکٹ چینجز اور سینٹر آف ارتھ کوئک قائم کیے، جو نیشنل سینٹر آف فزکس کے ماتحت کام کرتے ہیں۔
حکومت پاکستان نے انھیں 3 اعلیٰ سول اعزازات سے نوازا۔
ڈاکٹر انصار پرویز