پاکستان

مردم شماری کے عبوری نتائج پر اپوزیشن جماعتوں کے اعتراضات

محکمہ شماریات اورپاک فوج کی جانب سےجمع شدہ اعدادوشمار کاموازنہ کیا جائےتاکہ نتائج کی حقیقی تصویر سامنے آسکے، خورشید شاہ

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے محکمہ شماریات کی جانب سے حال میں جاری کیے جانے والے مردم شماری کے عبوری نتائج پر سوال اٹھاتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار کردیا۔

اپنے گذشتہ دورِ حکومت میں مردم شماری اور خانہ شماری نہ کرانے والی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے شماریات کے اس عمل کو گذشتہ ایک برس سے تاخیر کا شکار رہنے کے بعد آغاز اور اس کی تکمیل پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

تاہم حال ہی میں جاری ہونے والے مردم شماری کے عبوری نتائج کے اعداد و شمار پر قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما سید خورشید شاہ نے سوالات اٹھا دیے۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق خورشید شاہ نے مطالبہ کیا کہ محکمہ شماریات اور پاکستان آرمی کی جانب سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کا موازنہ کیا جائے تاکہ مردم شماری کے نتائج کی حقیقی تصویر سامنے آسکے۔

مزید پڑھیں: 21 کروڑ لوگوں کے لیے 3 کروڑ گھر

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے شماریات کے اس عمل پر محض رسمی طور پر کام کیا اور جس طرح مردم شماری کی گئی اس سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما نے حکام پر پہلے سے متعین منصوبے کے تحت اعداد و شمار جاری کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ نتائج بدل دیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق سندھ کی آبادی کو جان بوجھ کر 1 کروڑ سے کم کر دیا گیا جبکہ پنجاب کی آبادی کو 1 کروڑ سے بڑھا دیا گیا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب کو مشترکہ مفادات کونسل میں 50 فیصد کی نمائندگی دے دینا بھی سازش کا حصہ ہے۔

مردم شماری کے ابتدائی نتائج کو سندھ کے حقوق کا استحصال کرنے کی ایک کوشش قرار دیتے ہوئے اس معاملے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے صوبائی سطح پر کثیر الجماعتی کانفرنس منعقد کرنے کا مطالبہ کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: مردم شماری میں اور کیا کیا شمار ہونا چاہیئے تھا

پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعجاز دھمرا نے بھی ان نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کراچی اور لاہور کی آبادی میں زیادہ فرق نہیں جو کہ ممکن نہیں ہوسکتا۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی رہنما بشریٰ گوہر نے مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ صرف شمالی وزیرستان میں 20 لاکھ رجسٹرڈ آئی ڈی پیز موجود ہیں تو پورے فاٹا میں کس طرح 50 لاکھ کی آبادی ہو سکتی ہے؟ کیا یہ غلط اعداد و شمار ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سینیٹر سید مظفر حسین شاہ نے ڈان کو بتایا کہ اگر صوبے شماریات کے عمل کے حوالے سے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اعتراضات اٹھاتے تو اس کے نتائج مختلف ہو سکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسا کوئی بھی نتیجہ نہیں دیکھا، اگر سندھ حکومت کے پاس ایسے کوئی نتائج موجود ہیں تو وہ صوبائی اسمبلی میں اراکین کو اس کی وضاحت دے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد کتنی؟

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی مراد سعید نے بھی مردم شماری کے ابتدائی تنتائج کو مسترد کردیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ موجودہ مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق پاکستان میں 1998 کی مردم شماری کے بعد سے اب تک آبادی میں 57 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

تحریک انصاف کی سینیٹر شِبلی فراز نے بھی شماریات کے اس عمل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شماریات کا یہ عمل ایک غیر شفاف طریقے سے کیا گیا تھا۔

ایک متعلقہ پیش رفت کے مطابق سینیٹ کی فنانس کمیٹی کا اجلاس 29 اگست کو بلایا گیا ہے جس میں محکمہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے حوالے سے بات چیت کی جائے گی۔


یہ خبر 27 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی