پشاور: نجی اسکول پرنسپل کا خواتین کے جنسی استحصال کا اعتراف
پشاور: ایک نجی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان کی قابل اعتراض ویڈیو بنانے کے الزام میں گرفتار کرکے مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر دیا گیا جہاں انہوں نے اپنا جرم قبول کرلیا۔
مجسٹریٹ اصغر خان نے کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے سیکشن 164 کے تحت ملزم عطااللہ خان مروت کا بیان ریکارڈ کیا جس کے بعد انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر پشاور کی سینٹرل جیل بھیج دیا گیا۔
واضح رہے کہ مذکورہ پرنسپل کو حیات آباد پولیس نے ایک طالب علم کی جانب سے 14 جولائی کو جمع کرائی جانے والی درخواست کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: 'خواتین کو ہراساں کرنے کا بل تعلیمی اداروں پر قابل اطلاق نہیں'
درخواست میں طالب علم نے نجی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے خلاف اسکول کے طالب علموں، اساتذہ اور دیگر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور اسکول کی حدود میں نصب کیے گئے خفیہ کیمروں کی مدد سے ان کی قابل اعتراض ویڈیو بنانے کے سنگین الزامات لگائے۔
تاہم اس کیس کی تفتیش سے آگاہ ایک پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ طالب علم کی جانب سے اسکول کے ہیڈ ماسٹر پر اساتذہ کو جنسی ہراساں کرنے کے الزامات ثابت نہیں ہوسکے۔
اس کیس کے تفتیشی افسر ریاض خان نے ڈان کو بتایا کہ ملزم کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اس نے اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کرایا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ملزم کا اعترافی بیان محض باہر سے خواتین کو اسکول میں لا کر ان کے ساتھ بد فعلی کرنے اور ان کی قابل اعتراض ویڈیو بنانے کے حوالے سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 'خاتون کو ہراساں' کرنے پر جامعہ کراچی کے پروفیسر گرفتار
جب ریاض خان سے سوال کیا گیا کہ ایف آئی آر میں یہ بات لکھی گئی کہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے اسکول کے طالب علموں اور اساتذہ کی بھی ویڈیوز بنائیں تو اس کے جواب میں پولیس افسر نے جواب دیا کہ ابتدائی طور پر ان پر یہی الزامات لگائے گئے تھے جو اب تک ثابت نہیں ہو سکے۔
اسکول کے ایک طالب علم نے پولیس کو بتایا تھا کہ ملزم طالب علموں اور اساتذہ کا استحصال کرنے میں ملوث ہے، یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ ملزم باہر سے اسکول میں آنے والی خواتین کا بھی استحصال کیا کرتا تھا جبکہ ہیڈ ماسٹر کے خوف سے کوئی بھی اس بات کو منظرعام پر نہیں لاسکا۔
طالب علم نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے انہیں بھی خفیہ طور پر بنائی جانے والی کچھ تصاویر اور ویڈیوز دکھائی تھیں اور اس گھناؤنے عمل میں شامل ہونے کا کہا۔
ایف آئی آر کے مطابق جب پولیس حکام نے اسکول پر چھاپہ مارا تو ملزم نے اپنے دو موبائل فون چھپانے کی کوشش کی جن میں مبینہ طور پر اسکول کے طالب علموں کی نازیبا ویڈیوز موجود تھیں جبکہ ملزم اس عمل کے لیے اسکول کے تین کمرے استعمال کرتا تھا۔
مزیر پڑھیں: گلگت: استاد کے مبینہ تشدد سے 11 سالہ بچی جاں بحق
ایف آئی آر میں یہ بھی بتایا گیا کہ پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے دوران میموری کارڈز اور یو ایس بی برآمد کیں جن میں ملزم کی لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ قابل اعتراض ویڈیوز موجود تھیں، اس کے علاوہ ان ویڈیوز میں ملزم کم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ بد فعلی کرتے پائے گئے۔
نجی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے خلاف خواتین کا استحصال، ریپ، زدو کوب کرنے اور جعلسازی کرنے جیسی شقوں کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
پولیس حکام نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ملزم سے ایک غیر قانونی پستول برآمد کی جبکہ اسکول میں لگے خفیہ کیمرے بھی برآمد کر لیے۔
یہ خبر 21 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی