پاکستان

جے آئی ٹی میرے محل آکر بیان ریکارڈ کرلے:سابق قطری وزیراعظم

شیخ حمد بن جاسم نےجےآئی ٹی ممبران کے نام اور بیان ریکارڈ کرنے کے لیےدوحہ آمد کی تاریخ کے حوالے سے بھی دریافت کیا،ذرائع

اسلام آباد: پاناما لیکس کیس کے سلسلے میں شریف خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو قطر بلانے کی آخری کوشش کرتے ہوئے سابق قطری وزیراعظم شیخ حمد بن جاسم بن جبر الثانی نے ایک اور خط لکھ دیا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق شیخ حماد بن جاسم نے جے آئی ٹی کو حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے سے قبل ان کے محل میں آکر ان کا بیان ریکارڈ کرنے کی پیشکش کی۔

ذرائع کے مطابق سابق قطری وزیراعظم نے جے آئی ٹی ممبران کے نام اور بیان ریکارڈ کرنے کے لیے دوحہ آمد کی تاریخ کے حوالے سے بھی دریافت کیا۔

یاد رہے کہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا اور جے آئی ٹی کو قطری خطوط کے مصدقہ ہونے کی جانچ کی ہدایت بھی کی تھی۔

سابق قطری وزیراعظم کے معاملے نے اُس وقت سر اٹھایا تھا جب نومبر 2016 میں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے شریف خاندان کے وکلا نے حمد بن جاسم الثانی کا خط پیش کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس: سابق قطری وزیراعظم کا ایک اور خط پیش کردیا گیا

عدالت عظمیٰ میں پیش کیے گئے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے تحریری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ 'میرے والد اور نواز شریف کے والد کے درمیان طویل عرصے سے کاروباری تعلقات تھے، میرے بڑے بھائی شریف فیملی اور ہمارے کاروبار کے منتظم تھے۔'

خط کے مطابق '1980 میں نواز شریف کے والد نے قطر کی الثانی فیملی کے رئیل اسٹیٹ بزنس میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ظاہر کی، میرے خیال میں 12 ملین درہم نواز شریف کے والد نے ہمارے کاروبار میں لگائے، جو انھوں نے دبئی میں اپنے بزنس کو فروخت کرکے حاصل کیے تھے۔'

حماد بن جاسم بن جبر الثانی نے خط میں مزید کہا کہ 'لندن کے 4 فلیٹس (16، 16اے ، 17 اور 17 اے ایون فیلڈ ہاؤس، پارک لین ، لندن) دو آف شور کمپنیوں کے نام رجسٹرڈ تھے، ان آف شور کمپنیوں کے شیئر سرٹیفکیٹ قطر میں موجود تھے، لندن کے فلیٹس قطر کے رئیل اسٹیٹ بزنس کے منافع سے خریدے گئے اور دونوں خاندانوں کے تعلقات کی بناء پر یہ فلیٹس شریف خاندان کے زیر استعمال تھے جس کا وہ کرایہ دیتے تھے۔'

یہ بھی پڑھیں: ’سابق قطری وزیراعظم کے خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں‘

واضح رہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے رواں سال مئی میں سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ ان خطوط کے حوالے سے بیان ریکارڈ کروانے کے لیے شیخ حماد سے رابطہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے شیخ حماد کو پیشکش کی تھی کہ وہ چاہیں تو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں یا دوحہ میں پاکستانی سفارت خانے سے بذریعہ ویڈیو لنک گواہی دے دیں۔

ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے شیخ حماد کو آگاہ کیا تھا کہ بیان ریکارڈ کرانے کے بعد انہیں ٹرائل کورٹ میں بھی طلب کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: سابق قطری وزیراعظم کا خط اور وزیراعظم کا موقف مختلف: سپریم کورٹ

رپورٹس کے مطابق اس وقت مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اور شیخ حماد بن جاسم کے درمیان دائرہ کار کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے، تحقیقاتی ٹیم کا اصرار ہے کہ شیخ حماد پاکستان کے علاقائی دائرہ اختیار میں اپنا بیان ریکارڈ کروائیں جبکہ سابق قطری وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ وہ اس دائرہ اختیار کے پابند نہیں لہذا جے آئی ٹی ان کے محل آکر بیان ریکارڈ کرسکتی ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی پہلے ہی جے آئی ٹی رپورٹ کی منظوری کو سابق قطری وزیراعظم کے بیان سے مشروط کرچکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر جے آئی ٹی اہم ترین گواہ شیخ حماد بن قاسم کا بیان ریکارڈ نہیں کرتی تو رپورٹ ادھوری رہے گی۔

'تلور کے شکار کے لیے قطری شہزادہ فوراً پاکستان آجاتا ہے'

ادھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما شفقت محمود نے سابق قطری وزیراعظم کے مؤقف کو شریف خاندان کے لیے سنگین امتحان قرار دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ آنے کی بجائے سابق قطری وزیراعظم نے پاکستانی عدالتوں کے دائرہ اختیار کو چیلنج کردیا ہے۔

پی ٹی آئی کے مرکزی میڈیا ڈپارٹمنٹ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق شفقت محمود نے کہا کہ 'جو شخص کسی عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہ کرے اس کے بھیجے گئے خطوط کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے؟'

ان کا مزید کہنا تھا کہ شریف خاندان کے ہاتھ میں بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق قطری خطوط کے علاوہ اور کوئی دستاویز نہیں۔

قطر جا کر شیخ حماد کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے ان کاکہنا تھا کہ 'یہ سارا تماشا جے آئی ٹی کو متازع بنانے کی ایک بھونڈی کوشش ہے، اور سابق قطری وزیراعظم کی رہائش گاہ جاکر بیان قلمبند کرنے کی کوئی قانونی حاجت یا ضرورت نہیں'۔

شیخ حماد کو دفاع یعنی شریف خاندان کا گواہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'دنیا بھر کی عدالتوں اور پولیس کی تحقیقات میں گواہ دفاع کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں،جب یہ ذمہ داری شریف خاندان کی ہے تو وہ قطری کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش کرنے سے کیوں گھبرا رہے ہیں؟

شیخ حماد کے پاکستان نہ آنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'تلور کا شکار کرنا ہو تو قطری شہزادے فوراً پاکستان پہنچ جاتے ہیں، پاکستان میں بجلی کے منصوبوں سے منافع اکٹھا کرنے کا موقع آئے تو بھی انہیں پاکستان آنے میں مشکل پیش نہیں آتی'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'اگر سابق قطری وزیراعظم جے آئی ٹی یا پاکستانی عدالتوں کا سامنا کرنے سے خوفزدہ ہیں تو وہ اپنی تحویل میں موجود دستاویزات پاکستان بھجوا دیں'۔