امریکی مسجد میں چیمپیئنز ٹرافی کا جشن
امریکی شہر ڈیئربورن کی زینبیہ مسجد میں خطبہ دینے آئے ڈیٹرایٹ میں جنم لینے والے شیخ اسامہ عبدالغنی کا بیٹا اپنے ارد گرد اردو بولنے والوں کو بحث کرتے حیران ضرور ہوتا ہوگا۔
رمضان کے 22 دن افطار پر ایک دوسرے کو کھجور پیش کرنے والے، کھانے کی میز پر لکھنؤ کی آپ جناب اور لاہور کی سر جی تساں پہلے کرنے والے، ایک دوسرے کو پانی کا پیالہ اور چائے کا مگ پیش کرنے والے شب قدر کے رت جگے کے دوران یہ کس کھیل کی جزیات پر بحث کر رہے تھے۔
اگر بات کلیو لینڈ کی باسکٹ بال ٹیم کی ہو رہی ہو یا باسٹن کے سرخ جرابوں والی ریڈ ساکس کا قضیہ ہو تو وہ سمجھے بھی، یہ کرکٹ کیا بلا ہے اور یہ لوگ کیوں اپنی اپنی ٹیموں پر اترا رہے ہیں۔ بریڈ فورڈ کے یا برمنگھم کے رہائشی جان کو بھی پریشانی ہوگی کہ یاسر بٹ کا بیٹا عمیر بٹ جو اس کے بچے کے ساتھ فٹ بال کی ٹیم پریکٹس پر جاتا ہے، کبھی مانچسٹر یونائیٹڈ کے لیے یوں سڑکوں پر یوں نہیں ناچا، نہ ہی کبھی وہ اپنے دیس کا سبز ہلالی پرچم لے کر سڑکوں پر اپنے باپ کی گاڑی کے ہارن بجاتا گزرا۔
کرکٹ میچ نشر کرنے والی سلنگ ویب سائٹ کو بھی حیرت ہوتی ہوگی کہ یہ کون سا صارف ہے جو ایک ہفتے کے لیے ان کی ویب سائٹ سے چار میچوں کی سبسکرپشن لیتا ہے اور پھر پلٹ کر نہیں دیکھتا۔ انکسٹر مشی گن کے ہمساے بھی سوچتے ہوں گے کہ ساری رات شب قدر کا رت جگہ کرنے کے بعد صبح 6 بجے جیت کا غلغہ کس مجذوب کے گھر سے بر آمد ہوا ہے۔ یہ سارے پردیسی کیوں سورج مکھی کے پھول کی طرح ہوتے ہیں کہ چاہے جتنا مرضی پرائی مٹی میں آباد رہیں، توجہ کے سارے چہرے اسی سورج کی آرتی اتارے بیٹھے ہیں جس کی تپش اتنی صدیوں کی دوری کے باوجود بھی ان دھڑکتے دلوں کی گرمی بڑھاتی ہے۔
یہ سارے شریک جو ہمارے اس نئے سفر میں ہمارے ساتھی ہیں، ہمارے اسکول میں، ہمارے روزگار میں یا ہمارے محلے کے در و دیوار میں، کیا جانیں کہ ہمارا سب سے بڑا فرقہ اور سب سے بڑی برادری کرکٹ کی ہے، یہ ہماری امید بھی ہے اور ہمارا یاس بھی، ہمارا مان بھی ہے اور ہمارا اپمان بھی۔
ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر، چپس کے پیکٹ اور بیئر کے کین ہاتھ میں پکڑے میچ دیکھنے والوں کو کیا پتہ کہ جب بجلی چلی جائے تو محلے کے کونے میں پان کی دکان کے باہر اخبار کی ردی کے دستی پنکھے جھلتے تماشایوں کا واحد حوصلہ وہ 16 انچ کی ٹی وی کی اسکرین ہے، جس میں وہ اپنے ارمانوں کی بچی کھچی دنیا آباد کر سکتے ہیں۔
کسی جان، مارک یا گولڈبرگ کو کیا خبر کے سرفراز کے چھکے نے پہلی بار اس گھر میں مسکراہٹ کا ویزا دلوایا ہے جس کا جوان بیٹا 6 مہینے پہلے بم دھماکے میں ہلاک ہوا تھا۔ بازار سے 6 ڈالر میں خریدی بال میں وہ کہاں لطف جو اپنے ہاتھ سے ٹینس کی پیلی بال پر نیٹو کی سرخ ٹیپ چڑھا کر اور اس کے اوپر ایک موٹی لکیر بنا کر کھیلنے میں ہے۔
ملائم گھاس کے میدانوں میں آپ کو کھیل کا وہ سرور نہیں مل سکتا جو لاہور کی تپتی سڑک میں سرخ اینٹوں کی وکٹ بنا کر یا اسکردو کے پتھریلے میدانوں میں چونے سے نشان لگا کر یا کراچی کے نشتر پارک میں پلاسٹک کی وکٹیں کھڑی کرکے ملتا ہے۔ جب قضافی اسٹیڈیم کی پچوں پر خاموشی کا رقص ہو اور اسٹیڈیم کے باہر کھلتے ریسٹورانٹ ایسے قبرستان کا منظر پیش کر رہے ہوں جس کے اوپر کوئی نیا پلازہ تعمیر کیا گیا ہو، تو ساری امیدیں سات سمند پار کسی کھیل کے میدان میں لڑتے اپنے سورماؤں سے وابستہ ہوتی ہیں۔
چیمپیئنز ٹرافی کی فتح اگر آسٹریلیا کو مل جاتی تو وہ دو گھڑی خوش ہو جاتے کہ چلو ان کی ٹرافیوں کی الماری میں ایک نیا کھلونا آ گیا۔ اگر انگلینڈ جیت جاتا تو چار گھڑی اچھل کود لیتے کہ دیکھا ہم ہیں اس کھیل کے بانی تو ہم سے کون جیت سکتا ہے۔ اگر انڈیا جیت جاتا تو وہ بھی کچھ گھڑیاں کھل کھیل لیتے کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے، مگر پھر آئی پی ایل کی ٹرین آتی اور سب بھول کر ایک نئے ہنگامے کی تلاش کی ایک نئی ابتدا۔
پاکستان کی کہانی مگر مختلف ہے۔
پارکوں میں پھٹتے بم دھماکوں، لوڈ شیڈنگ کی تپتی راتوں، پاناما، دھرنوں، کرپشن، سازشوں اور تبدیلیوں کے مارے لوگوں کی زندگی میں خوشیاں بچی ہی کتنی ہیں؟ ہم لوگ تو روایت پرست لوگ ہیں 1992 کے ورلڈ کپ کے میچ بار بار ری پلے کر کے دیکھنے والے۔ شارجہ کے چھکے سینے سے لگانے والے، وسیم اکرم اور وقار یونس کے یارکر یا سعید انور کی چنائے کی دھواں دھوار اننگز کی جگالی کرنے والے۔
مگر یہ سب کچھ کتنا دور رہ گیا ہے۔
دھونی جتنا مرضی سرفراز کا بیٹا اٹھا لے، کوہلی جتنی مرضی عامر کی تعریفیں کر ڈالے، سارے کمنٹیٹر اور سارے استاد اب چاہے جتنا مرضی داد میں سر ہلادیں، برتری کا وہ گھمنڈ اور لاوارثی کا وہ درد کہاں تک چھپے گا جب آئی پی ایل میں ساری دنیا کے للو پنجو کھیلنے گئے مگر ایک پاکستانی شاید آفریدی کی جگہ نہ بن سکی۔ جب سارے گلی گوچوں میں عالمی مقابلے ہوئے مگر راولپنڈی کا اسٹیڈیم غریب کے چولہے کی طرح برباد رہا۔
کیا کچھ بیچ میں نہیں آیا۔ جوئے کے الزامات، قرنوں سے اپنی پچوں پر خاموشی کا راج، آئی پی ایل سے بے دخلی، آئر لینڈ سے شکست، کیا کیا کچھ نہیں گزرا اور پھر جب ٹورنامنٹ شروع ہوا تو جگتیں، کوئی ہمیں واپسی کے ٹکٹ دکھا رہا تھا، کوئی ہماری بیٹنگ کا مذاق اڑا رہا تھا، کسی کو ہماری باؤلنگ سے تکلیف تھی۔
مولانا روم کا کہنا ہے کو 'زخم ایک ایسی کھڑکی ہے جس سے روشنی آپ کے بدن میں داخل ہوتی ہے۔' سو یہ چیمپیئنز ٹرافی کوئی عام فتح نہیں۔ انڈر ڈاگ کی وہ کہانی ہے جس کی فلمیں تو سب نے دیکھی ہیں مگر جو ورق ورق ہم پر بیتی ہے، اس کا کرب ہم نے محسوس کیا ہے۔
ڈیئر بورن کی مسجد دراصل ہماری امیدوں کا وہ نخلستان ہے جس میں ہم نے امید کے پہلے پودے کے سر ابھارتے دیکھ کر خوشیاں بانٹی ہیں۔
بریڈ فورڈ کی گلیاں وہ رقص گاہ ہیں جس میں ہم نے خداوندان کرکٹ کو للکارا ہے۔ سو یہ جو ہم سڑکوں پر ناچتے ہیں ناں تو یہ درد کا عرفان ہے۔ اہل صفا اور مردود حرم کے مسند پر بٹھائے جانے کا جشن ہے۔ یہ دھتکارے جانے والوں کا لگان ہے۔
بھلا فلمیں بنانے والوں کو کیا پتہ کہ بارش کے ترسے لوگوں کا درد کیا ہوتا ہے۔ وہ سرمایہ لگا سکتے ہیں، فنکار بلاسکتے ہیں، کیمرہ ایکشن کہہ سکتے ہیں مگر بے کسی کا کرب محسوس نہیں کر سکتے۔ ان کو کیا پتہ کہ مدت سے ترسی دھرتی پر بارش کی پہلی بوند کا لمس کیسا ہوتا ہے اور دھوپ کے جھلسائے بدن کا بارش میں رقص کیسا ہوتا ہے۔
اختر عباس اس آخری نسل کے نمائندے ہیں جس نے لکھے ہوئے لفظوں سے دور افتادہ رشتوں کا لمس محسوس کیا۔ وہ اس پہلی نسل کا بھی حصہ ہیں جس نے الیکٹرانک میسیجنگ کی برق رفتاری سے دلوں کے رنگ بدلتے دیکھے۔ نابیناؤں کے شہر میں خواب تراشتے ہیں اور ٹویٹر پر Faded_Greens@ کے نام سے چہچہاتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔