پاکستان

ڈان اخبار کی خبر کا معاملہ: راؤ تحسین کا عدالت سے رجوع

ڈان خبر معاملے میں پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین نے انکوائری رپورٹ کےحصول کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔

ڈان اخبار میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر کی تحقیقات کے بعد ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے سابق پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین نے اپنے خلاف الزامات سے متعلق انکوئری کمیٹی کی رپورٹ کے حصول کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین کی درخواست وصول کی، یہ درخواست انھوں نے وسیم سجاد ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر کی تھی۔

درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ نے ان کا کریئر داغدار کیا اور انھیں ذمہ دار ٹھہرایا مگر رپورٹ کی کاپی ابھی تک انہیں فراہم نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیں: ’شدت پسندوں کے خلاف کارروائی یا بین الاقوامی تنہائی‘

انھوں نے درخواست میں عدالت سے استدعا کی کہ عدالت انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کی فراہمی کے لیے حکم جاری کرے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ 6، 7 اور 8 فروری کو میڈیا پر آنے والی خبروں میں بتایا گیا کہ ڈان اخبار کی خبر کے معاملے کی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ جاری کی جا چکی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈان اخبار کی خبر کے معاملے پر انھوں نے کمیشن سے رجوع کیا تھا مگر انھیں انکوائری رپورٹ کی کاپی نہیں دی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں راؤ تحسین کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ حاصل کرنا میرا حق ہے، جس کی فراہمی کے لیے عدالت حکم جاری کرے۔

درخواست میں وفاق، سیکرٹری اطلاعات، سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری وزیراعظم نواز شریف کو فریق بنایا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی خبر کا معاملہ

واضح رہے کہ 6 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کی تحقیقات کے لیے حکومت نے نومبر 2016 میں جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا خان کی سربراہی میں 7 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

مذکورہ خبر سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کا سبب بنی تھی، جس کے بعد وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے 3 دفعہ اس کی تردید بھی جاری کی گئی تھی۔

اس سے قبل اہم خبر کے حوالے سے کوتاہی برتنے پر وزیراعظم نوازشریف نے اکتوبر 2016 میں ہی پرویز رشید سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا قلم دان واپس لے لیا تھا۔

سرکاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اخبار میں چھپنے والی خبر قومی سلامتی کے منافی تھی اور تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پرویز رشید نے کوتاہی برتی، یہی وجہ ہے کہ انہیں آزادانہ تحقیقات کے لیے وزارت چھوڑنے کی ہدایت کی گئی۔

دوسری جانب خبر رپورٹ کرنے والے صحافی سرل المیڈا کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیا گیا تھا، جسے بعدازاں خارج کردیا گیا۔

اپنے اداریے میں ڈان نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’خبر تصدیق شدہ تھی جس میں موجود حقائق کو مختلف ذرائع سے جانچا گیا تھا‘۔

بعدازاں رواں سال اپریل میں ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے معاملے میں مبینہ طور پر کردار ادا کرنے پر وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی کو عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا جبکہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین علی خان کے خلاف بھی ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز 1973 کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔

اس حوالے سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن پر آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’ڈان کی خبر کے حوالے سے جاری ہونے والا اعلامیہ نامکمل اور انکوائری بورڈ کی سفارشات سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہیں'، تاہم بعدازاں انھوں نے اپنی ٹوئیٹ واپس لے لی تھی۔

اس واقعے کے کچھ ہی روز بعد وزیراعظم نواز شریف کے سابق معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے الوداعی خط میں اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔