دنیا

موصل: 'داعش نے 1 لاکھ شہریوں کو انسانی ڈھال بنا رکھا ہے'

شکست کے بعد داعش جن جن علاقوں سے نکلی وہاں سے اس نے شہریوں کو اپنے ساتھ لے کر موصل منتقل کردیا، نمائندہ اقوام متحدہ

جنیوا: اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دہشت گرد تنظیم داعش نے عراق کے اہم ترین شہر موصل میں 1 لاکھ سے زائد شہریوں کو انسانی ڈھال بنا کر قید کر رکھا ہے۔

واضح رہے کہ عراقی فورسز موصل سے داعش کا قبضہ چھڑانے میں مصروف ہیں، جہادی تنظیم نے 2014 میں یہاں اپنا قبضہ قائم کرتے ہوئے شہریوں پر ظالمانہ حکمرانی مسلط کی تھی۔

اس حوالے سے عراق میں پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کے نمائندہ برونو گیڈو کا کہنا تھا کہ داعش موصل کے باہر ہونے والی جھڑپوں میں شہریوں کو گرفتار کرکے انہیں موصل کے قدیم شہر جانے پر مجبور کررہی ہے جو ان کے قبضے میں موجود واحد حصہ رہ گیا ہے۔

جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ 'موصل کے قدیم شہر میں اب بھی 1 لاکھ سے زائد شہری قید ہوسکتے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: داعش کے خلاف مغربی موصل میں بھی آپریشن شروع

ان کا کہنا تھا 'ہم جانتے ہیں کہ شکست کے بعد داعش جن جن علاقوں سے نکلی وہاں سے اس نے شہریوں کو اپنے ساتھ لے کر موصل منتقل کردیا'۔

نمائندہ اقوام متحدہ کے مطابق 'یہ شہری وہاں انسانی ڈھال کی صورت میں موجود ہیں، علاقے میں کھانا، پانی، بجلی کچھ باقی نہیں رہا، یہ افراد ایک ایسے علاقے میں موجود ہیں جہاں دہشت اور مفلسی کی صورتحال بدترین ہوتی جارہی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ لوگ چاروں جانب جنگ سے گھرے ہوئے ہیں'۔

تصاویر دیکھیں: داعش کے خلاف آپریشن، موصل میں عوام مشکلات کا شکار

برونو گیڈو کا کہنا تھا کہ 'داعش کے کنٹرول میں موجود علاقے سے نکلنے کی کوشش کرنے والے افراد کو اسنائپرز قتل کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں جبکہ جو چند افراد نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ شدید صدمے اور تشدد کا شکار ہوتے ہیں'۔

واضح رہے کہ 9 ماہ قبل موصل سے داعش کا قبضہ ختم کرنے کے لیے شروع ہونے والی کارروائیوں میں شہر سے 8 لاکھ 62 ہزار سے زائد افراد دربدر ہوچکے ہیں۔

ان افراد میں سے صرف 1 لاکھ 95 ہزار افراد پرامن علاقوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکے، جبکہ 6 لاکھ 67 ہزار کے قریب افراد اب بھی دربدر ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق موصل کے مغربی علاقوں سے ہے، یہ افراد اقوام متحدہ کی جانب سے لگائے گئے کیمپوں اور میزبان خاندانوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔


یہ خبر 17 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔