پاکستان

مقتول مشعال خان کے سامان سے متعدد اشیا غائب

مشعال خان کے والدین نے دعویٰ کیا کہ غائب اشیاء میں بٹوہ، کیمرہ، موبائل اور لیپ ٹاپ شامل ہیں۔
|

مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مقتول مشعال خان کا سامان ہاسٹل سے گھر پہنچادیا گیا تاہم اہل خانہ نے متعدد اشیاء کے غائب ہونے کا دعویٰ کردیا۔

یونیورسٹی کے ہاسٹل سے گھر منتقل کیے جانے والے سامان میں کتابیں، کپڑے، جوتے، ان کی تصاویر اور بیگس سمیت دیگر اشیاء شامل ہیں۔

سامان گھر پہنچنے پر مقتول مشعال خان کے والدین نے سامان کی جانچ کی تو معلوم ہوا کہ اس میں سے بیشتر سامان غائب ہے۔

مشعال خان کے والدین نے دعویٰ کیا کہ غائب چیزوں میں بٹوہ، کیمرہ، موبائل اور لیپ ٹاپ غائب ہے، جو گھر منتقل نہیں کیے گئے۔

اس موقع پر مقتول مشعال خان کے والدین اپنے بیٹے کا سامان دیکھ کر افسردہ ہوگئے۔

مزید پڑھیں: 'مشعال خان کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا'

مقتول مشعال خان کا گھر منتقل کیا جانے والا سامان — فوٹو: حسن فرحان.

’والد کے مطالبات حکومت منظور کرسکتی ہے‘

آئی جی خیبر پختونخوا صلاح الدین خان نے گزشتہ روز صوبائی حکومت کو آگاہ کیا کہ مشعال خان قتل کیس سے متعلق ان کے والد کے مطالبات قانون کے مطابق تسلیم کیے جاسکتے ہیں۔

حکومت کو لکھے گئے خط میں صلاح الدین خان نے مشعال قتل کیس کو قومی اہمیت کا حامل کیس قرار دیتے ہوئے مشعال کے والد محمد اقبال کی نجی پراسیکیوشن وکیل کی تقرری کے مطالبے کو قبول کرنے کی سفارش کی۔

انہوں نے محمد اقبال کے کیس کی منتقلی کے مطالبے سے متعلق کہا کہ صوابی اور مردان کی پولیس کو محمد اقبال اور ان کے خاندان کی سیکیورٹی سخت کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم کیس کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے پشاور ہائی کورٹ منتقل کرنے کی تجویز کا معاملہ مناسب موقع پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے اٹھایا جائے گا۔‘

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے مشعال کے والد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ بااثر مخالفین کی وجہ سے کیس کی کارروائی میں دشواری پیدا ہوسکتی ہے، لہٰذا ان کے بیٹے کا کیس مردان سے باہر منتقل کیا جائے۔

بعد ازاں انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی جس میں اپیل کی گئی تھی کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث ان کی اور ان کی بیٹیوں کی اسلام آباد منتقلی کے لیے حکومت مالی اور انتظامی مدد کرے۔

خیال رہے کہ گذشتہ ماہ 13 اپریل کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں گستاخی کے الزام میں شعبہ ابلاغ عامہ کے 23 سالہ طالب علم مشعال خان کو تشدد کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

واقعے کے بعد یونیورسٹی سے متصل ہاسٹلز کو خالی کرالیا گیا جبکہ یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا۔

بعدازاں مشعال کی بہن نے ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اپنے بھائی پر لگائے گئے الزامات غلط قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مشعال کا کسی سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مشعال قتل کیس میں 'مرکزی ملزم' کی گرفتاری

واضح رہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد 15 اپریل کو وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے مشعال خان کی ہلاکت کی جوڈیشل انکوائری کے لیے سمری پر دستخط کرکے باقاعدہ منظوری دی تھی، جبکہ اگلے روز یعنی 15 اپریل کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مشعال خان کی موت کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کی۔

مشعال خان کا سامان — فوٹو: حسن فرحان.

دوسری جانب پولیس نے اب تک مشعال قتل کیس میں 35 افراد سے زائد افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا، جن میں یونیورسٹی کا ایک ملازم بھی شامل ہے جس کے حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ یہی 'مرکزی ملزم' ہے۔

تاہم رواں ہفتے کے آغاز میں مشعال خان قتل کیس کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ مکمل کرلی تھی، جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پی ایس ایف کے صدر صابر مایار اور یونیورسٹی ملازم نے واقعہ سے ایک ماہ قبل مشعال کو قتل کرنے کی بات کی تھی، مخصوص سیاسی گروہ کو مشعال کی سرگرمیوں سے خطرہ تھا۔

مزید پڑھیں: مشعال قتل کیس: 'فنکار پکڑے گئے، لیکن ہدایت کار آزاد'

جے آئی ٹی کا کہنا تھا کہ مشعال یونیورسٹی میں بے ضابطگيوں کے خلاف کھل کربولتا تھا جبکہ مشعال اور اس کے ساتھیوں کے خلاف توہین رسالت یا مذہب کے کوئی ثبوت موجود نہیں ملے۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مخصوص گروپ نے توہین رسالت کے نام پر لوگوں کو مشعال کے خلاف اکسایا تھا۔