ریاض کے گورنر اور دیگر اعلیٰ سعودی حکام نے وزیراعظم کا استقبال کیا— فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق سعودی ولی عہد سلمان بن عبد العزیز نے نواز شریف کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔
سعودی وزیر انفارمیشن منسٹر اود بن صالح الاود نے گذشتہ ہفتے پاکستان کو دورہ کیا تھا اور اسلام آباد تک ولی عہد کا دعوت نامہ پہنچایا تھا۔
اس سربراہی اجلاس میں سعودی ولی عہد شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ مسلم دنیا کے 55 سربراہان مملکت بھی شرکت کے لیے مدعو کیے گئے ہیں۔
یہ عظیم اجلاس شریک ممالک کو موقع فراہم کرے گا کہ وہ دنیا بھر میں موجود دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت پر قابو پانے کے لیے تبادلہ خیال کرسکیں۔
تاہم امید کی جاتی ہے کہ اس اجلاس میں موجود تمام شرکاء دہشت گردی کو مخصوص مذہب، ثقافت، تہزیب یا خطے سے قطع تعکق کرنے کی کوشش کریں گے۔
وزیر اعظم نواز شریف سعودی عرب کے جانب سے شروع کیے جانے والے ایک اہم انسداد شدت پسند پروگرام ’انتہا پسندی کے خلاف عالمی مرکز‘ کی افتتاحی تقریب میں عالمی رہنماؤں کے ساتھ شرکت کریں گے۔
'عرب نیٹو کا تصور'
خیال رہے کی پاکستان سعودی عرب کا قریبی اتحادی ہے، دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون بھی مضبوط ہے جبکہ حال ہی میں پاکستانی حکومت نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی اتحادی فوج کی سربراہی کے لیے خصوصی اجازت جاری کی تھی۔
مشرق وسطیٰ کے معاملات کے ماہر برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دورہ دراصل 'عرب نیٹو کے تصور' کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔
اس کانفرنس کے موقع پر بظاہر شیڈول کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیراعظم نواز شریف کی دوطرفہ ملاقات کا موقع ملنا ممکن نہیں لگتا تاہم واشنگٹن میں موجود پاکستانی میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی عرب وزیراعظم نوازشریف اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کی حمایت کررہا ہے۔
واشنگٹن کے سفارتی ذرائع خیال ظاہر کرتے ہیں کہ متعدد سربراہان مملکت کی موجودگی میں ٹرمپ کی کسی سے علیحدہ ملاقات ممکن نہیں تاہم 'امریکا اس کوشش میں ہے کہ نواز شریف اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مختصر ملاقات ہوسکے'۔
ڈان سے گفتگو میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ حکام نے ملاقات سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات نہ ہونے کا اشارہ دیا جبکہ پاکستانی سفارت خانے کے مطابق یہ معاملہ اسلام آباد میں دیکھا جارہا ہے اور انہیں اس بارے میں کچھ پتہ نہیں۔
خیال رہے کہ امریکا میں کانگریس سے لے کر تھنک ٹینک اور میڈیا میں بھی اسی کانفرنس کا تذکرہ جاری ہے، امریکی میڈیا اور تھنک ٹینکس کے مطابق اس کانفرنس سے صرف چند روز قبل ٹرمپ انتظامیہ نے دو اہم اسلحے کے معاہدوں کا اعلان کیا تھا جن میں امارات کے ساتھ 1 ارب ڈالر کے میزائلوں کا معاہدہ اور سعودی عرب کے ساتھ 100 ارب ڈالر کی ڈیل شامل ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس اسلحے کو مسلم نیٹو آرمی کے استعمال میں لایا جاسکتا ہے، جس کی سربراہی جنرل (ر) راحیل شریف کریں گے۔
ایران مخالف اتحاد؟
چند رپورٹس میں یہ قیاس بھی کیا جارہا ہے کہ 54 عرب و مسلم ممالک کی اس کانفرنس میں ایران کو مدعو نہیں کیا گیا جس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ ایران مخالف اتحاد ہو۔
جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلم رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کم کرنے پر غور اس مفروضے کو مزید تقویت بخشتا ہے۔
اس سے قبل حال ہی میں وائٹ ہاؤس میں اماراتی شہزادے اور ٹرمپ کی ملاقات کی تفصیلات میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ دونوں سربراہان نے 'ایران کی جانب سے خطے کے استحکام کو لاحق خطرے' پر بات چیت کی۔