پاکستان

طیبہ تشدد کیس: جج راجہ خرم، اہلیہ پر فرد جرم عائد

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سماعت کے دوران بچی کے والدین اور ملزمان کے درمیان صلح نامہ مسترد کرتے ہوئے فرد جرم عائد کی۔
|

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کے کیس میں او ایس ڈی بنائے گئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر پر فرد جرم عائد کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کے دوران بچی کے والدین اور ملزمان کے درمیان صلح نامہ مسترد کرتے ہوئے فرد جرم عائد کی۔

ملزمان نے صلح نامے کی بنیاد پر فرد جرم عائد نہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

فرد جرم عائد ہونے پر ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا، جس پر عدالت نے گواہان کو طلب کر لیا۔

ماہین ظفر کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی دائر درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت 19 مئی تک ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: ڈومیسٹک چائلڈ لیبر کے خاتمہ کا مجوزہ بل طلب

واضح رہے کہ گھریلو تشدد کا شکار کمسن ملازمہ طیبہ کے والدین نے ملزم راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کو چیلنج کیا تھا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ بھی بچی کے والدین کی جانب سے جمع کرائے گئے اسی طرح کے صلح نامے کو مسترد کر چکی ہے۔

طیبہ تشدد کیس — کب کیا ہوا؟

کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ دسمبر 2016 کے آخر میں اُس وقت منظرعام پر آیا تھا، جب تشدد زدہ بچی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: سازش میں 'مافیا' ملوث، اہلیہ جج

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی جبکہ اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے بھی مارے تھے، تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعد ازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کم سن ملازمہ پر ہونے والے تشدد پر ازخود نوٹس کیس کو مزید ٹرائل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا۔

دوسری جانب تشدد کے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے سیشن جج اور ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ چند پڑوسیوں نے مبینہ طور پر ان کے خلاف 'سازش' کی، ملزم جوڑے کے مطابق انہوں نے والدین کی غربت کو دیکھتے ہوئے بچی کو انسانی ہمدردی کی بناء پر اپنے گھر میں رکھا تھا۔