پاکستان

کراچی: مصطفیٰ کمال سمیت پی ایس پی کےدیگر رہنما مذاکرات کےبعد رہا

پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ سمیت باقی افراد کو ملین مارچ کے دوران ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش پر گرفتار کیا گیا تھا
|

سندھ حکومت کے نمائندگان سے کامیاب مذاکرات کے بعد پولیس نے چیئرمین مصطفیٰ کمال سمیت پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے دیگر گرفتار رہنماؤں کو رہا کردیا۔

شہر کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس عدیل حسین چانڈیو نے اس بات کی تصدیق کی کہ سندھ کی صوبائی حکومت سے ہونے والے کامیاب مذاکرات کے بعد پی ایس پی کے گرفتار رہنماؤں کو رہا کیا گیا۔

رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مصطفیٰ کمال نے پی ایس پی کے مارچ پر ہونے والے شیلنگ کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کو شرم آنی چاہیئے لوگوں کو پانی مانگنے پر شیل مارے گئے مگر ہمارے کارکنوں نے صبر سےکام لیا، میں انہیں شاباش دیتا ہوں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں آصف زرداری کی کرپٹ حکومت ہے، سندھ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں اورحکومت کا جلد خاتمہ ہوگا۔

سربراہ پی اسی پی کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے سولہ نکات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اگلے 48 گھنٹوں میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

خیال رہے کہ سندھ کی صوبائی انتظامیہ اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد کراچی کے ریڈ زون میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر پولیس نے پی ایس پی کے مارچ میں شامل افراد پر شیلنگ اور لاٹھی چارج کے بعد متعدد رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔

سندھ حکومت نے ریڈ زون میں پی ایس پی کے طے شدہ ملین مارچ کو وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب جانے سے روکنے کی کوششوں کے سلسلے میں دفعہ 144 نافذ کی تھی، جس کے بعد پی ایس پی کے رہنماؤں اور سندھ حکومت کے درمیان اس حوالے سے مذاکرات ہوئے تھے تاہم وہ ناکام ہوگئے تھے۔

پی ایس پی کا مؤقف تھا کہ وہ ہر صورت میں ریڈ زون میں قائم وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاج کرے گی تاہم صوبائی حکومت نے انھیں ریڈ زون نہ جانے پر زور دیا تھا، مذاکرات کی ناکامی کے بعد پی ایس پی کا مارچ شارع فیصل پر رواں دواں تھا اور یہ جیسے ہی ریڈ زون کے قریب پہنچا پولیس نے انھیں روکنے کیلئے کارروائی کا آغاز کردیا گیا۔

پولیس نے پی ایس پی کے مارچ کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے شیلنگ، لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا استعمال کیا، جبکہ پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال سمیت دیگر کو حراست میں لے لیا تھا۔

حراست میں لیے گئے دیگر رہنماؤں میں رضا ہارون، ڈاکٹر صغیر اور دیگر شامل تھے۔

بعد ازاں پاک سرزمین پارٹی کے مارچ پرشیلنگ کے خلاف شہر کے مختلف علاقوں میں مظاہروں کا آغاز ہوا۔

لانڈھی، کورنگی، ملیر اور لائینز ایریا سمیت دیگر علاقوں میں پی ایس پی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

پی ایس پی کے 16 رہنما اور کارکن گرفتار، پولیس

علاوہ ازیں کراچی میں ضلع جنوبی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس آزاد خان نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے پی ایس پی کے 16 رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا ہے، جن میں انیس قائم خانی بھی شامل تھے۔

ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ حراست میں لیے گئے دیگر رہنماؤں میں مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر صغیر احمد، رضا ہارو، افتخار عالم، حفیظ سمیت دیگر شامل ہیں اور انھیں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر حراست میں لیا گیا ہے۔

سینئر پولیس افسر نے دعویٰ کیا کہ مارچ کے شرکا کو کارساز سے ایف ٹی سی فلائی اوور تک ریلی کیلئے این او سی دی گئی تھی جس سے مارچ کے شرکا نے اتفاق کیا تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ جب مارچ کے شرکا ایف ٹی سی فلائی اوور پہنچے تو صوبائی انتظامیہ اور پولیس حکام نے ان سے بات چیت کی کہ انھیں ریڈ زون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی ہے لیکن انھوں نے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے روکنے کیلئے پولیس کو شیلنگ، لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا استعمال کرنا پڑا۔

سیاسی مخالفین کو شہر کی ترقی ہضم نہیں ہورہی، شہلا رضا

ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کا کہنا تھا کہ پی ایس پی کو ریڈزون میں داخل ہونے سے روکا گیا تھا، انھیں سمجھایا تھا کہ ریڈزون میں داخل نہ ہوں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈپٹی اسیپکر کا کہنا تھا کہ ہم نےصرف واٹر کینن استعمال کیا، پنجاب حکومت نے ماڈل ٹاؤن میں جو کیا وہ سب کے سامنے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مارچ کے شرکا پر پہلے پانی اور پھر آنسو گیس برسائی، یہ طریقہ تو نارمل ہے۔

شہلا رضا کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت بلدیاتی حکومتوں کو تمام اختیارات حاصل ہیں، مصطفیٰ کمال کراچی کی نمائندگی نہیں کرتے، کراچی کی ترقی سیاسی مخالفین کو ہضم نہیں ہورہی۔

سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ میئر کراچی کو ان کے اپنے ہی لوگ کام کرنے نہیں دے رہے۔

چوہدری نثار کی مذمت

بعد ازاں پی ایس پی کے مارچ پر پولیس کی کارروائی کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پرامن سیاسی اجتماع پر طاقت کا استعمال سمجھ سے بالاتر ہے۔

چوہدری نثار نے مصطفیٰ کمال اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے مسائل سے لاتعلق صوبائی حکومت حقوق مانگنے والوں پر تشدد کررہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کا آئین ہر قسم کے سیاسی اجتماع کی مکمل اجازت دیتا ہے جبکہ صوبائی حکومت نے پُرامن احتجاج کرنے والوں کو نشانہ بنایا ہے۔

سندھ حکومت کا سخت رد عمل

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بیان پر وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ کے ترجمان نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری نثار پہلے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے کارکنوں کے قتل کی مذمت کریں۔

بیان میں کہا گیا کہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں مظاہرے کے ساتھ آپ نے جو کیا وہ پوری قوم کو یاد ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) جمہوری طریقہ اپنائے ہوئے ہے لیکن انہیں ہماری پالیسی سمجھ نہیں آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت جمہوری روایات پر عمل کرکے مظاہرین سے مذاکرات کررہی تھی۔

بیان میں کہا گیا کہ ریڈ زون میں دفعہ 144 نافذ ہے اور خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کی جائے گی جبکہ شہر میں زبردستی دکانیں بند کرانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

گورنر سندھ کی تشویش

پی ایس پی کی ریلی پر پولیس کے لاٹھی چارج اور مصطفیٰ کمال سمیت دیگر رہنماؤں کی گرفتاریوں پر گورنر سندھ محمد زبیر نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو معاملے کو جلد از جلد پُر امن طریقے سے حل کرنے کی ہدایت کی۔

گورنر ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت سے نامناسب رویہ کسی صورت مناسب نہیں، احترام ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ ریلی میں شریک خواتین ،بوڑھوں اور بچوں کا خیال رکھا جائے۔

گورنر سندھ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ پُرامن مظاہرین پر طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے۔

ریڈ زون میں دفعہ 144 کا نفاذ

یاد رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے نافذ کیے گئے دفعہ 144 کے تحت ایک مقام پر 4 سے زیادہ افراد کے جمع ہونے، ریلیاں نکالنے اور جلسے وغیرہ کرنے پر پابندی عائد تھی جبکہ یہ اقدام پی ایس پی کے ملین مارچ کے آغاز سے چند گھنٹے پہلے اٹھایا گیا۔

دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب جانے والے راستوں کو کنٹینرز لگاکر بند کردیا گیا تھا، تاہم پی ایس پی کارکنان نے رکاوٹیں ہٹاکر وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب بڑھنے کی کوشش کی۔

سندھ حکومت نے مارچ کے پیش نظر پہلے ہی اضافی سیکیورٹی اہلکار تعینات کر رکھے تھے، جنہوں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر ایکشن لیا۔

پولیس نے پی ایس پی کارکنان پر پانی اور آںسوں گیس کی شیلنگ سمیت لاٹھی چارج بھی کیا، جس سے کئی کارکنان بے حال ہوگئے، جب کہ کئی رہنماؤں اور کارکنان کو حراست میں لے لیا گیا۔

ڈان نیوز کے مطابق پولیس نے پی ایس پی کارکنان کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب بڑھنے سے روکنے کے لیے بھرپور شیلنگ کی، جس سے کارکنان آگے نہیں جاسکے۔

پولیس نے کارکنان پر پانی کی توپیں بھی چلائیں، جب کہ لاٹھی چارج کا سہارا بھی لیا۔

پولیس نے ملین مارچ میں شامل پی ایس پی رہنماؤں رضا ہارون اور ڈاکٹر صغیر احمد سمیت دیگر رہنماؤں اور کارکنان کو بھی حراست میں لے لیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے اعلان کیا تھا کہ وہ کراچی کے شہریوں کے حقوق حاصل کرنے کے لیے اتوار 14 مئی کو ریلی نکالیں گے جس میں 10 لاکھ افراد شریک ہوں گے اور وہ وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب مارچ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما فیصلے کے بعد سندھ میں سیاسی ہلچل شروع

پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی نے کہا تھا کہ ریڈ زون میں دفعہ 144 کے باوجود وہ وزیر اعلیٰ ہاؤس جائیں گے۔

14 مئی کی صبح ہی پی ایس پی کے کارکن بھی ملین مارچ میں شرکت کے لیے شارع فیصل پر جمع ہونا شروع ہوئے،جبکہ مختلف علاقوں میں بینرز اور کیمپ لگائے گئے۔

پی ایس پی کے انیس قائم خانی نے شارع فیصل پر مرکزی کیمپ کا دورہ کیا جبکہ اس موقع پر انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کسی بھی ریڈ زون کو ماننے سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم کسی ریڈ اور یلو زون کو نہیں مانتے ، ہر حال میں وزیر اعلیٰ ہاؤس جائیں گے‘۔

ادھر کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے خبردار کیا ہے کہ ریڈ زون میں دفعہ 144 کے باعث جلسہ جلوس اور اجتماع کی ممانعت ہے اور اس پابندی پر سختی سےعمل کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: گورنر کی یقین دہانی،کے الیکٹرک کیخلاف جماعت اسلامی کا دھرنا

خیال رہے کہ پی ایس پی سندھ حکومت پر ناقص گورننس کا الزام عائد کرتی ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ حکومت کراچی کے شہریوں کو بجلی، پانی اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کرے۔

اس سے قبل پی ایس پی نے کراچی پریس کلب کے باہر 18 روز تک کراچی کے شہریوں کے حقوق کے لیے دھرنا بھی دیا تھا تاہم اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا تھا۔

اس وقت بھی مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ ریڈ زون، جہاں گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، سندھ اسمبلی اور دیگر اہم سرکاری عمارتیں واقع ہیں، کوئی مقدس مقام نہیں جہاں عام لوگ جاکر اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کراسکتے۔