پاکستان

زندگی کو خطرہ ہے، تحفظ فراہم کیا جائے، چیئرمین پیمرا

ابصار عالم نے وزیر اعظم اور آرمی چیف سے دھمکی آمیز کال کی تحقیقات کی درخواست کردی۔

اسلام آباد: پاکستان الیکٹرانک میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے چیئرمین ابصار عالم نے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے انہیں موصول ہونے والی دھمکی آمیز فون کال کی تحقیقات کی درخواست اور اپنی ٹیم کی حفاظت کی اپیل کر دی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے بتایا کہ ’کچھ لوگ پیمرا کے ملازمین کو دھمکیاں دے رہے ہیں‘۔

پریس کانفرنس کے دوران ابصار عالم نے ایک ٹیلی فون کال بھی سنوائی جس میں کال کرنے والا شخص دھمکیاں دے رہا ہے اور ایک چینل کو فعال کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

ابصار عالم نے وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

مزید پڑھیں: پیمرا نے نجی چینلز کے لائسنس معطل کردیئے

چیئرمین پیمرا نے کہا ’مجھے اپنی جان کی پرواہ نہیں لیکن میں اپنی ٹیم کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹی وی چینلز پر مجھے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر میں نے کبھی کسی کا جواب نہیں دیا۔

اس موقع پر انہوں نے اس بات کا شکوہ بھی کیا کہ جب فحش گانوں پر ایکشن لیتے ہیں تو لبرلز ہمیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کورٹ کی جانب سے اس پر بھی حکم امتناع جاری کردیا جاتا ہے۔

ابصار عالم نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کو خط لکھا ہے کہ پیمرا کے قانون کی دفعہ 33 اے کے تحت وفاقی حکومت اور اس کے تمام ادارے پیمرا کی مدد کرنے کے پابند ہیں اور وفاقی حکومت سے مدد اس لیے مانگی ہے تاکہ ہم اپنا کام بہتر طریقے سے انجام دے سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: بول نیوز اور بول انٹرٹینمنٹ کے لائسنس منسوخ

چئیرمین پیمرا نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی خط لکھا ہے اور ان سے گزارش کی ہے کہ ہمارے جو کیسز کورٹ میں زیر التوا ہیں ان کیسز کے بارے میں جلد کوئی فیصلہ کیا جائے اور ان کی سماعت کی رفتا کو تیز کیا جائے کیوںکہ ہم جو بھی ایکشن لیتے ہیں انہیں کورٹ میں چیلنج کردیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیمرا نے گزشتہ سال میں 373 ایکشن لیے جن میں سے 333 کورٹ میں چیلنج ہوئے۔

ابصار عالم کا کہنا تھا کہ پیمرا کا اختیار عملی طور پر ہائی کورٹس کے پاس جاچکا ہے جبکہ ادارے کا اختیار اتنا محدود کردیا گیا ہے کہ پیمرا کی جانب سے پاکستانی میڈیا کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم محسوس کرتے ہیں کے آپریشن رد الفساد تب تک اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکتا جب تک کچھ ٹی وی چینلز اور لوگ پاکستان کے آئین اورسپریم کورٹ کی جانب سے نافذ کیے جانے والے ضابطہ اخلاق پر عمل نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیں: رمضان میں ٹی وی پروگرامات کیلئے پیمرا کی ’خصوصی ہدایات‘

انہوں نے کہا کہ ایسے ہی لوگ ذہن سازی کرتے ہیں اورریاست کے اداروں کے درمیان تفریق پیدا کرتے ہیں، پھر لوگوں کے ذہنوں میں زہر بھرتے ہیں جس کی ذمہ داری بھی پیمرا پر عائد کردی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا ’مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میری تنخواہ بہت زیادہ ہے لیکن میں نے پچلے سال 82 لاکھ روپے انکم ٹیکس ادا کیا‘۔

ابصار عالم نے کہا ’میرے خلاف ایسے الزامات لگائے گئے جن کا میں جواب دینا بھی پسند نہیں کرتا حتیٰ کہ ان الزامات کو ناموس رسالت سے جوڑا گیا‘۔

انہوں نے کہا ’میں وہ اداکار نہیں ہوں جو ٹی وی پر بیٹھ کر پیسے لے کر لوگوں کے خلاف فتویٰ دے‘۔

یہ بھی پڑھیں: 'خودکشی کے مناظر' دکھانے پر پیمرا کا جیو انٹرٹیمنٹ کو نوٹس

چیئرمین پیمرا کا کہنا تھا کہ ریاست کے تمام ستونوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم پاکستان کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ کیا ہمیں اس ریاست کو ریاست بنانا ہے؟ کیا ہمیں ریاست کو مضبوط کرنا ہے؟ کیا ایسے عناصر جن کی جیبوں میں غیر ملکی پاسپورٹ ہیں اور وہ معاشرے میں انتشار پھیلا رہے ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنی؟

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم ان عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے تو پیمرا کو بند کر دیا جائے تاکہ ہم لوگ بھی کوئی دوسرا کام کریں۔

ابصار عالم نے کہا میرے اور وزیر اعظم پاکستان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، ہمارے دل ایک دوسرے کے قریب ہیں اور وزیراعظم نے میرے کام میں کبھی مداخلت نہیں کی۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ میں یہاں ایک ادارے کے ذمہ دار کی حیثیت سے موجود ہوں مجھے اپنے ادارے کے لوگوں کی حفاظت بھی کرنی ہے۔

مزیدپڑھیں:بول نیوز کو پیمرا حکم کی خلاف ورزی پر نوٹس

انھوں ںے کسی ایک چینل کے حوالے سے جانبدارانہ رویہ ہونے کی تردید کرتے ہوئے ابصار عالم نے کہا کہ جس چینل کے حامی ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے ہم نے سب سے زیادہ اس ہی چینل کے خلاف کارروائی کی۔

ابصار عالم نے یہ بھی بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری ترقی کرے اور اسی لیے نئے چینلز کے لیے لائسنس جاری کرنا چاہتے ہیں جبکہ نئے لائسنس جاری کرنے پر بھی کورٹ میں 2 اسٹے آرڈر موجود ہیں جنہیں ہم ختم کرانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ نئے چینلز متعارف ہوں اور میڈیا انڈسٹری میں روز گار بڑھے۔

ایک سوال کے جواب میں ابصار عالم نے واضح کیا کہ میں استعفیٰ نہیں دوں گا اور خدشات دور نہ ہونے تک جدوجہد کرتا رہوں گا۔