دنیا

چمن واقعے میں 50 نہیں 2 فوجی ہلاک ہوئے، افغان سفیر

واقعے میں پاکستان کی طرف بھی ہلاکتیں اورلوگ زخمی ہوئے،لیکن ہم اس پرجشن منانے کے بجائے اس کی مذمت کرتےہیں، عمرزاخیل وال

اسلام آباد: پاکستان میں تعینات افغان سفیر عمر زاخیل وال نے گذشتہ ہفتے چمن میں پاک-افغان فورسز کے درمیان ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں افغانستان کے 50 فوجیوں کی ہلاکت کے دعوے کی ترید کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے میں صرف 2 فوجی ہلاک ہوئے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز انسسپکٹر جنرل (آئی جی) فرنٹیئر کور(ایف سی) بلوچستان میجر جنرل ندیم انجم نے دعویٰ کیا تھا کہ پاک-افغان سرحد پر افغان فورسز کی جانب سے کی جانے والی جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا، جس کے نتیجے میں 50 افغان فوجی ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔

تاہم افغان سفیر عمر زاخیل وال نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں آئی جی ایف سی کے دعوے کی تردید کی اور کہا، 'تمام پاکستانی اخبارات کی سرخیاں یہ کہہ رہی ہیں کہ چمن واقعے میں پاکستان نے 50 افغان فوجیوں کو ہلاک اور 100 کو زخمی کیا، یہ معلومات صرف پاک فوج اور ایف سی (سدرن کمانڈ) کی جانب سے فراہم کی گئیں، سچ تو یہ ہے کہ صرف 2 افغان فوجی شہید اور تقریباً 7 زخمی ہوئے'۔

ان کا مزید کہنا تھا، 'چاہے 2 جانیں ہوں یا زیادہ، نقصان اتنا ہی ہے، اگر بہتر دوستانہ تعلقات کا دعویٰ سچائی پر مبنی ہو اور اگر ہم ایک دوسرے کے لیے اچھا سوچتے ہوں'۔

ساتھ ہی عمر زاخیل وال کا کہنا تھا کہ 'چمن واقعے میں پاکستان کی طرف بھی ہلاکتیں اور لوگ زخمی ہوئے، لیکن ہم اس پر جشن منانے کے بجائے اس کی مذمت کرتے ہیں'۔

یاد رہے کہ رواں ماہ 5 مئی کو بلوچستان کے علاقے چمن میں مردم شماری ٹیم کو تحفظ فراہم کرنے والے سیکیورٹی اہلکاروں پر افغان بارڈر فورسز نے فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں 2 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 12 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: چمن فائرنگ: پاکستان کی جوابی کارروائی میں 50 افغان فوجی ہلاک

واقعے کے بعد پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ 'افغان بارڈر پولیس نے مردم شماری ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور ایف سی بلوچستان کے اہلکاروں کو فائرنگ کا نشانہ بنایا'۔

بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ’افغان انتظامیہ کو پیشگی اطلاع جبکہ مردم شماری کا عمل یقینی بنانے کے لیے سفارتی اور فوجی سطح پر تعاون اور روابط کے باجود بھی افغانستان کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ جاری ہے’۔

بعدازاں افغان فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکت پر افغان ناظم الامور عبدالناصر یوسفی کو دفتر خارجہ طلب کرکے سخت احتجاج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'افغانستان سرحدی معاملات ٹھیک کرنے میں غیر سنجیدہ'

پاکستان کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ افغانستان فائرنگ کا یہ سلسلہ فوری طور پر ختم کرے اور سرحد کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

دوسری جانب پاک فوج کے ڈی جی ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے افغان ڈی جی ایم او سے ہاٹ لائن رابطے میں بارڈر پولیس کو افغان حدود میں رکھنے کا انتباہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشیدگی میں کمی کے لیے افغان فورسز کو اپنی حدود میں رہنا چاہیئے۔

دوسری جانب گذشتہ روز آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل ندیم انجم نے دعویٰ کیا تھا کہ پاک-افغان بارڈر پر افغان فورسز کی جانب سے کی جانے والی جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا جس میں 50 افغان فوجی ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔

مزید پڑھیں: چمن:’افغان فورسز کی فائرنگ سے 2 ہزار خاندان متاثر ہوئے‘

چمن میں میڈیا کو پریس بریفنگ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ان (افغانستان) کے ہونے والے نقصان سے خوش نہیں کیونکہ وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں، لیکن پاکستان کی سالمیت ہمارے لیے اولین ترجیح ہے، ہم پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی قبول نہیں کریں گے اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے‘۔

انہوں نے بتایا تھا کہ 'ہم نے افغان حکام سے ملاقاتیں کیں اور انہیں ہر لمحہ باخبر رکھا کہ پاکستان کے اس علاقے میں مردم شماری کی جائے گی تاکہ انہیں کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہو لیکن پھر بھی انہوں نے یہ شرارت کی'۔

ساتھ ہی آئی جی ایف سی نے باور کرایا تھا کہ اگر کسی نے دوبارہ یہ کارروائی کرنے کی کوشش کی تو اس سے بھی زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔