پاکستان

ڈینگی کے خاتمے کیلئے مچھر مار بل بورڈز

ان بل بورڈز میں ایگزاسٹ فین موجود ہیں،جو قریب آنے والے مچھروں کواپنی جانب کھینچ لیتے ہیں،جہاں پھنسنے کےبعد وہ مرجاتےہیں۔

'ڈینگی سے پاک پاکستان' مہم کے تحت معروف کمپنی ریکٹ بینکیزیئر (آر بی) نے حالیہ برسوں میں ملک سے ڈینگی کے خاتمے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔

اس سلسلے میں حالیہ اقدام مچھر مار بل بورڈز کی تنصیب ہے، جنھیں گذشتہ ماہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں لگایا گیا۔

اس اقدام کو کمپنی کے سی ای او شاہ زیب محمود نے 'ڈینگی سے پاک پاکستان' کے عزم کے سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا۔

اگر اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ گذشتہ 6 برس میں پاکستان بھر میں 65 ہزار سے زائد ڈینگی کے کیسز سامنے آئے، صرف گذشتہ برس پنجاب میں ان کیسز کی تعداد 3 ہزار تھی، جبکہ سندھ میں 2 ہزار ڈینگی کے کیسز ریکارڈ کیے گئے، گذشتہ برس صرف کراچی میں ڈینگی کے 195 کیسز سامنے آئے۔

مزید پڑھیں: ’ڈینگی سے پاک پاکستان‘ مہم کے آغاز کا اعلان

ڈینگی مچھر کے خاتمے کے لیے لگائے گئے ان بل بورڈز میں ایگزاسٹ فین موجود ہیں، جو قریب آنے والے مچھروں کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں، جہاں وہ پھنسنے کے بعد ڈی ہائیڈریٹ ہو جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔

اس حوالے سے کمپنی کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ فہد اشرف نے بتایا، 'یہ آئیڈیا برازیل سے لیا گیا، جہاں یہ پروگرام کامیابی سے چلایا گیا'۔

ان بل بورڈز کے سلسلے میں مشہور مچھر مار دوا مورٹین کا تعاون بھی حاصل ہے، مورٹین موسکیٹو کلر بل بورڈز آؤٹ ڈور مقامات پر مچھروں سے نمٹنے کے لیے ایک نہایت جدید طریقہ ہے۔

ان بل بورڈز کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرتے ہیں اور بالکل اُسی طرح کی بو پیدا کرتے ہیں، جیسی انسانی جسم سے آتی ہے، تاکہ مچھر اس کے قریب آسکیں۔ ان میں لگا ہوا بلٹ اِن ایگزاسٹ فین مچھروں کو اپنی جانب کھینچتا ہے، جہاں پھنسنے کے بعد وہ وہیں اپنی موت مرجاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ڈینگی کی نئی قسم دریافت

اس حوالے سے فہد اشرف نے بتایا، اس مہم کے سلسلے میں جگہ اور مقام کا تعین خاص طور پر کیا گیا تاکہ ان کے زیادہ سے زیادہ اثرات مرتب ہوسکیں، انھوں نے بتایا کہ بل بورڈز کی تنصیب کے حوالے سے مورٹین کی ٹیم کی کچھ ترجیحات تھیں۔

بل بورڈز ایسے مقامات پر لگائے گئے، جہاں رش زیادہ ہوتا ہے اور جہاں کچرہ اور گندگی زیادہ ہے، کیونکہ ان مقامات پر ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کی افزائش زیادہ ہوتی ہے اور یہاں لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اگرچہ اس مہم کے موثر ہونے کا تعین کرنا قبل از وقت ہے، تاہم ریکٹ اینڈ بینکیزیئر کا کہنا ہے کہ یہ بل بورڈز ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کی کئی اقسام کو روزانہ ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تاہم فنانشل اور لاجسٹک وسائل کی کمی کے باعث اس پروگرام کو بہت محدود پیمانے پر شروع کیا گیا اور ملک کے تینوں بڑے شہروں میں رواں برس 20 بل بورڈز لگائے گئے۔

اس حوالے سے فہد اشرف کا کہنا تھا کہ اصل ضرورت کے مقابلے میں اس پروگرام کی پہنچ بہت کم ہے، تاہم مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے کہ ڈینگی، چکن گونیا اور ملیریا وغیرہ کے خاتمے کے لیے یہ پہلا قدم ضروری ہے اور اس کے ذریعے ہم 'ڈینگی سے پاک پاکستان' کے اپنے وژن کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں۔

یہ رپورٹ ارورا میگزین میں شائع ہوئی، جسے یہاں ترجمہ کرکے شائع کیا گیا۔