پاکستان

ای او بی آئی میں اربوں کی چوری کی ذمے دار حکومت: سپریم کورٹ

عدالت نے ادارے کے مالی معاملات کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز اور نیب پراسیکیوٹر کو طلب کرلیا۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن اور پنشنرز کے کیس کی سماعت کی۔

عدالت عظمیٰ نے ای او بی آئی کے مالی معاملات کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز اور نیب پراسیکیوٹر کو طلب کرلیا۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت رپورٹس نہیں بلکہ مسئلے کا حل چاہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ای او بی آئی کرپشن اسکینڈل کا مرکزی ملزم گرفتار

انہوں نے کہا کہ ای او بی آئی میں جو اربوں کی چوری ہوئی اس کی ذمے دار حکومت ہے، اختیارات کی منتقلی کے حوالے سے 18 ویں آئینی ترمیم کو چھ سال گزر چکے لیکن اب تک ای او بی آئی کو صوبوں کے حوالے نہیں کیا گیا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آئین پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔

اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ 35 سال کی خدمات کے بعد صرف پانچ ہزار روپے کی پنشن دینا ظلم کی انتہا ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ای او بی آئی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا، اس کی جائیدادیں اونے پونے داموں فروخت کی گئیں لیکن اس میں اس میں پیشنر کا کیا قصور ہے جس نے اپنی امانت سرکاری ادارے کے پاس رکھی۔

مزید پڑھیں: ای او بی آئی کیس: دس روز میں تحقیقات مکمل کرنیکی ہدایت

اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ای او بی آئی کا انتظام صوبوں کو منتقل کرنے کے حوالے سے قانون سازی کے لیے فائل وزیر اعظم کے پاس پڑی ہوئی ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس عظمت نے خبردار کیا کہ اگر مسلہ حل نہ ہوا تو وزارت خزانہ کے فنڈز بند کرنے کا حکم جاری کر سکتے ہیں جبکہ یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ حکومت فنڈز کہاں کہاں استعمال کر رہی ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ہم یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ ایوان پر کتنے اخراجات کیے جا رہے ہیں۔

بعد ازاں کیس کی سماعت 11 مئی تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔