پاکستان

انتخابی اصلاحات میں تاخیر: حکومت، اپوزیشن کی الزام تراشیاں

حکومت، اپوزیشن اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک دوسرے کو انتخابی اصلاحات میں تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے الیکشن لاء 2017 کیلئے قانون سازی کو فوری حتمی شکل دینے کے مطالبے کے بعد حکومت، اپوزیشن اور ای سی پی نے معاملے میں تاخیر کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کردی۔

اپوزیشن کی دو اہم جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حکومت اور ای سی پی کو انتخابی اصلاحات میں تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرایا جبکہ ای سی پی کا کہنا تھا کہ قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

ای سی پی نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو رواں ہفتے کے آغاز میں بھیجی گئی تحریر کے ذریعے کہا تھا کہ وہ انتخابی اصلاحات پر قائم پارلیمانی کمیٹی کو ہدایت کریں کہ اپنی تجاویز کو حتمی شکل دیں اور جس قدر جلد ہوسکے بل کو منظوری کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے تاکہ نئے قانون کے مطابق ای سی پی اپنا کام مکمل کرسکے۔

کمیٹی کے سربراہ اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گذشتہ سال 20 دسمبر کو پارلیمنٹ ہاؤس کے دونوں ایوانوں میں الیکشن لاء 2017 کا بل ڈرافٹ کیا تھا۔

انھوں نے اعلان کیا تھا کہ کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے تجاویز لی جائیں گی اور حتمی ڈرافٹ 30 یوم میں مکمل کرلیا جائے گا۔

تاہم اس کے بعد اس معاملے میں کسی بھی قسم کی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عارف علوی نے ای سی پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ادارے نے اپنے کردار کو نظر انداز کرتے ہوئے ذمہ داری دوسروں پر ڈال دی۔

انھوں نے الزام لگایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ای سی پی انتخابی اصلاحات کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

عارف علوی کا کہنا تھا کہ ای سی پی کی جانب سے کارروائی کے بائیکاٹ کی وجہ سے گذشتہ دو ماہ میں کمیٹی کا ایک بھی اجلاس منعقد نہیں ہوا ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما نے یہ الزام بھی لگایا کہ ای سی پی جان بوجھ کر اصلاحات کے عمل میں تاخیر کررہی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے کمیٹی کی جانب سے دیئے گئے ایک بھی کام کو وقت پر انجام نہیں دیا۔

عارف علوی نے افسوس کا اظہار کیا کہ الیکٹرونک ووٹر مشین (ای وی ایم) کے استعمال، ووٹرز کی شناخت کیلئے بائیومیٹرک تصدیق اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کے حق کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس سے قبل ای سی پی کے حکام نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ بائیومیٹرک تصدیق کے نظام کے استعمال کیلئے تیار ہیں لیکن بعد ازاں اسے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈیٹا کو ہیک کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی شازیہ مری نے اتفاق کیا کہ ای سی پی 'سرگرم' نہیں ہے تاہم انھوں نے اصلاحات میں تاخیر کی ذمہ داری حکومت پر عائد کی۔

انھوں نے زور دیا کہ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ای سی پی کو ضروری مدد فراہم کرے۔

خیال رہے کہ شازیہ مری خود بھی انتخابی اصلاحات کمیٹی کی رکن ہیں، انھوں نے کہا کہ ان کی پارٹی ای سی پی کو مضبوط کرنا چاہتی ہے اور یہ دیکھا جارہا ہے کہ کمیشن خود مختاری چاہتا ہے لیکن حکومت کی ترجیحات اس سے مختلف ہیں۔

سینیٹ میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے نمائندے سینیٹر طاہر مشہدی نے پی ٹی آئی کو انتخابی اصلاحات میں تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے ڈرافٹ میں معمولی مسائل پر ہنگامہ برپا کیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کمیٹی کے رکن اور وزیر مملکت برائے کیپٹل ڈولپمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریشن ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے تاخیر کا ذمہ دار اپوزیشن کو ٹھہرایا۔

انھوں نے کمیٹی کے گذشتہ کے اجلاس میں کہا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں نے مذکورہ ڈرافٹ کو حتمی شکل دینے کیلئے حکومت سے کچھ وقت مانگا تھا، جس کے بعد سے وہ جواب کے منتظر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے تاخیر نہیں ہور ہی اور اُمید کا اظہار کیا کہ آئندہ کچھ ہفتوں میں کمیٹی اپنا کام مکمل کرلے گی۔

اس دوران ای سی پی کے ایڈیشنل سیکریٹری فدا محمد کا کہنا تھا کہ انتخابات کے دوران اے وی ایمز اور بی وی ایمز کے استعمال کی تجویز ڈرافٹ میں پیش کی گئی تھی، ان کا کہنا تھا تاہم یہ اب بھی ڈرافٹ کی صورت میں موجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس کے باوجود کہ ای وی ایمز اور بی وی ایمز کا استعمال قانونی کے تحت نہیں تاہم ای سی پی نے وزیراعظم سے ایک سمری کے ذریعے درخواست کی ہے کہ ان مشینوں کے استعمال سے قبل ان کی جانچ کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ 185 ای وی ایمز اور 100 بی وی ایمز کی خریداری کیلئے معاہدے پر دستخط کردیے گئے ہیں اور یہ مشینیں جون 2017 تک وصول کرلی جائیں گی۔

ای سی پی کے سیکریٹری کا کہنا تھا کہ انھیں عام انتخابات کیلئے کم سے کم 3 لاکھ ای وی ایمز درکار ہوں گی جس کی لاگت 30 ارب روپے لگائی جارہی ہے جس میں ان کی بحالی اور خدمات بھی شامل ہوں گی۔

یہ رپورٹ 9 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی