غیرقانونی ترقیاں: پنجاب پولیس کے 121 افسران کی تنزلی
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آؤٹ آف ٹرن پروموشن یا غیر قانونی ترقیوں کے کیس کی سماعت کے دوران پنجاب پولیس کے 121 افسران کی تنزلی کا حکم دے دیا۔
جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔
پولیس افسران کی جانب سے خواجہ حارث، ملک قیوم اور عائشہ حامد عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران جسٹس امیر ہانی مسلم نے آپشن دیتے ہوئے کہا کہ 'آؤٹ آف ٹرن پروموشن سے متعلق افسران بتائیں کہ انھیں فیصلہ لینا ہے یاریٹائرمنٹ؟'
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'بہتر ہے افسران ریٹائرمنٹ لے لیں، جو لوگ چھلانگ لگا کر آگے آئے ہیں انھیں واپس جانا ہوگا'۔
مزید پڑھیں: عدالتی فیصلے پر نظرثانی کیلئے پولیس اہلکاروں کی اپیلیں مسترد
عدالت عظمیٰ نے ان افسران کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کا آپشن دیا تھا تاہم افسران نے اسے قبول نہیں کیا۔
جس پر عدالت نے پنجاب پولیس کے افسران کی تنزلی سے متعلق ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے متاثرہ افسران کی درخواستیں خارج کردیں۔
سپریم کورٹ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب کی رپورٹ درست قرار دیتے ہوئے آؤٹ آف ٹرن ترقیاں ختم کردیں اور انسپکٹر سے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) رینک تک کے 121 افسران کی تنزلی کا حکم جاری کردیا۔
سماعت کے دوران عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب پر برہمی کا اظہار کیا اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ کیوں نہ وزیر قانون کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیاجائے۔
نیب افسران جلد ریٹائرمنٹ لینے کیلئے تیار
سماعت کے دوران چیئر مین نیب کی جانب سے عدالت میں رپوٹ پیش کی گئی جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ ڈی جی نیب کراچی کرنل نعیم اور ڈی جی لاہور طارق نعیم ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ نیب کے جن دو افسران نے جلد ریٹائرمنٹ لینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے انہیں پینشن سمیت تمام مراعات دی جائیں۔
مزید پڑھیں: نیب کا غیرقانونی،جعلی اور خلاف ضابطہ تقرریوں کا اعتراف
نیب کے اسٹنٹ ڈائریکٹر کوئٹہ محمد عامر اور ڈپٹی ڈائریکٹر لاہور عنصر یعقوب نے اپنے سابقہ محکموں میں جانے کے رضا مندی ظاہر کی ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ دونوں افسران چئیرمین نیب کو درخواست دیں اور چیئرمین نیب انہیں واپس جانے کی اجازت دیں اور متعلقہ محکمہ دونوں افسران کی درخواستوں کا 15 دن میان فیصلہ کرے۔
عدالت نے کہا کہ نیب کے تین افسران میجر برھان علی ڈی جی نیب لاہور، طارق محمود ڈی جی بلوچستان اور منیر احمد ڈی جی نیب کراچی سے متعلق کل (بدھ کو) مناسب فیصلہ جاری کیا جائے گا۔
عدالت نے حکم دیا کہ نیب کے دیگر 48 افسران سے متعلق چئیرمین نیب اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرکے عدالت کو آگاہ کریں۔
سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ 'کیا سپریم کورٹ کو بادشاہوں والے اختیارات حاصل ہیں؟، ہمیشہ عدلیہ کا احتساب کبھی نہ ہونے کی باتیں کی جاتی رہیں، ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا فیصلہ دیا تو سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کو مستفی ہونا پڑا'۔
انہوں نے کہا کہ 'کیا ہم بھی غیر قانونی بھرتیوں کو جائز قرار دے کر مستفی ہوں؟'
بینچ میں شامل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 'کیا فوج میں قوانین نرم کرکے بھرتی ہو سکتی ہے؟
جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ 'وزیر اعظم قانون کے ماتحت ہیں، کیا وزیر اعظم میٹرک پاس کو پالیسی کے تحت پی ایچ ڈی کی ڈگری دے سکتے ہیں؟'
عالیہ رشید کا معاملہ
عالیہ رشید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عالیہ رشید کی نیب میں بھرتی وزیر اعظم نے پالیسی میٹر کے تحت کی جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ صرف وسیع تر قومی مفاد کے تحت ہی پالیسی میٹر پر احکامات جاری کئے جاسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نیب میں غیر قانونی تقرریاں، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس
عدالت نے نیب آگہی مہم کی ڈائریکٹر عالیہ رشید کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار بھی کیا اور جسٹس امیر کے استفسار کرنے پر وکیل نے بتایا کہ عالیہ رشید لیکچر دینے گئی ہیں۔
جسٹس امیر نے کہا کہ 'عالیہ رشید کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے اور وہ لیکچر دے رہی ہیں، لگتا ہے وہ سپریم کورٹ کے احکامات کو ہلکا لی رہی ہیں'۔
بعد ازاں نیب میں غیر قانونی بھرتیوں کے حوالے سے کیس کی سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے کہ 2013 میں سپریم کورٹ نے غیر قانونی ترقیوں کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ بطور انعام اور دیگر حوالوں سے پولیس افسران یا سول ملازمین کو اس طرح کی ترقیاں نہیں دی جاسکتیں۔