پاکستانی نژاد امریکی شہری کی امریکا حوالگی روک دی گئی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شدت پسند تنظیم داعش کی معاونت سے نیویارک پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے پاکستانی نژاد امریکی شہری کی امریکا حوالگی پر حکم امتناع جاری کردیا۔
عدالت عالیہ میں ملزم طلحہ ہارون کے والد ہارون رشید کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن پر سماعت ہوئی۔
درخواست میں سیکریٹری داخلہ، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل، اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ اور ضلعی انتظامیہ کو فریق بنایا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کیس کی ابتدائی سماعت کے بعد فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت کو اس وقت تک کے لیے ملتوی کردیا جب تک رجسٹرار آفس کی جانب سے تاریخ مقرر نہیں ہوجاتی۔
مذکورہ پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اڈیالہ جیل میں قید ملزم طلحہ کو ستمبر 2016 میں حراست میں لیا گیا تھا، جبکہ حکومت نے ان کی امریکا حوالگی کے عمل کا آغاز جنوری 2017 میں شروع کیا۔
مزید پڑھیں: قتل کے ملزم کی برطانیہ حوالگی کے خلاف حکم امتناع خارج
پٹیشن کے مطابق طلحہ اپنے والد ہارون رشید کے ہمراہ کوئٹہ میں رہائش پذیر تھا، جس کے پاس امریکی شہریت بھی ہے۔
مذکورہ پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا کہ طلحہ نے امریکا میں کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔
مزید کہا گیا کہ امریکی حکام کی جانب سے طلحہ کی حوالگی کی درخواست کے بعد یہ معاملہ اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس بھیجا گیا اور اس معاملے کی انکوائری ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ عبدالستار عیسانی نے کی۔
عیسانی نے 15 جنوری 2017 کو فریقین کا موقف سننے کے بعد وفاقی حکومت کو تجویز دی کہ ملزم کو تحویل ایکٹ برائے 1972 کی سیکشن 13 کے تحت امریکا کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی شہریوں کے 'قاتل' کی پاکستان میں ٹرائل کی اپیل
پٹیشن میں طلحہ کے والد ہارون رشید نے موقف اختیار کیا کہ ان کا بیٹا بے قصور ہے اور 1973 کے آئین پاکستان کے آرٹیکل 14 اور 9 کے تحت اسے بنیادی حقوق حاصل ہیں، جبکہ امریکا کو اس کی حوالگی سے اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
درخواست گزار نے مزید دعویٰ کیا کہ ان کے بیٹے کے خلاف گھڑی گئی کہانی جھوٹی اور بے بنیاد ہے۔
دوسری جانب طلحہ ہارون کی بہن عائشہ ہارون نے ڈان سے بات کرتے ہوئے اس بات کا دعویٰ کیا کہ ان کا بھائی بے گناہ ہے۔
واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ جب امریکا نے پاکستان سے دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ملزمان کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔
1995 میں پاکستانی حکومت نے رمزی یوسف نامی شخص کو 1933 اور 1997 میں ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے شبہ میں امریکا کے حوالے کیا تھا جبکہ میر ایمل کاسی کو بھی امریکا کے حوالے کیا گیا تھا جن پر 1993 میں سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے 2 ایجنٹس کو سی آئی اے ہیڈکوارٹرز میں ہلاک کرنے کا الزام تھا۔
نائن الیون حملوں کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی صدیقی سمیت درجنوں پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کیا گیا تھا۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنی کتاب 'اِن دی لائن آف فائر' میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ نائن الیون کے فوری بعد پاکستان نے 369 افراد کو امریکی حکام کے حوالے کیا اور کروڑوں ڈالرز کمائے۔
یہ خبر 28 مارچ 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی