پاکستان

اسلام آباد اور ملتان میں گھریلو ملازمہ پر تشدد کے نئے واقعات

ضلع رحیم یار خان کی رہائشی 12 سالہ بچی کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ 17 مارچ کو سامنے آیا۔
| |

اسلام آباد : وفاقی دارالحکومت میں سول جج کی اہلیہ کی جانب سے 10 سالہ کم سن گھریلو ملازمہ کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے معاملے کو ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ ایک اور کم سن گھریلو ملازمہ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ سامنے آگیا۔

اسلام آباد کے رہائشی محمد احمد اور ان کی والدہ الماس نے 12 سالہ گھریلو ملازمہ پر مبیہ طور پر تشدد کیا، یہ واقعہ سامنے آنے کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کرکے دونوں کو گرفتار کیا،۔ جنہیں بعد ازاں عدالتی احکامات پر رہا کردیا گیا۔

پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی رہائشی 12 سالہ بچی صائمہ کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ 17 مارچ کو سامنے آیا تھا۔

بچی کی جانب سے محمد احمد، ان کی والدہ الماس، بہن آمنہ اور ملازم رشید سمیت دیگر اہل خانہ پر تشدد کے الزامات لگائے گئے۔

بچی کے مطابق تمام اہل خانہ انہیں گزشتہ 4 سال سے تشدد اور تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔

یہ واضح نہ ہو سکا کہ 8 سال کی عمر میں بچی کو بطور ملازمہ اس گھر میں کس نے رکھوایا تھا، جبکہ 4 سال کے دوران بچی کے والدین نے کبھی اس معاملے پر کوئی کارروائی کیوں نہ کی۔

تشدد کا واقعہ سامنے آنے کے بعد بچی اور اس کے والدین کی جانب سے محمد احمد، ان کی والدہ اور دیگر افراد کے خلاف دفعہ 154 کے تحت تھانہ گولڑہ میں مقدمہ درج کرایا گیا۔

پولیس نے مقدمے کے اندراج کے بعد کارروائی کرتے ہوئے گھر کے مالک محمد احمد اور ان کی والدہ الماس کو گرفتار کیا، جنہوں نے بعد ازاں عدالت سے رجوع کرلیا۔

سول جج عبدالحفیظ نے 50، 50 ہزار روپے کے ضمانتی مچلوں کے عوض خاتون اور ان کے بیٹی کی ضمانت منظور کی، اور پولیس کو فوری طور پر رہائی کا حکم دیا۔

مبینہ تشدد سے متاثرہ بچی نے پولیس اور میڈیا کے سامنے الزام عائد کیا کہ انہیں گزشتہ 4 سال سے گھر جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی، جب کہ اس عرصے کے دوران ان پر تشدد کیا جاتا رہا۔

بچی کے مطابق گھر کے تمام افراد انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے رہے، جب کہ گھر کا ایک نوکر بھی ان پر تشدد کرتا رہا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ بچی پر گرم چھریوں کے ذریعے بھی تشدد کیا گیا۔

بچی کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں درج ہے کہ 17 مارچ کو گھر کے مالک محمد احمد نے نماز جمعہ کے لیے جانے سے قبل اسے گاڑی کی چابیاں دیں، جو بچی نے ان کی والدہ الماس کے حوالے کردیں، مگر بعد ازاں وہ بھول گئیں اور الزام لگایا کہ بچی نے انہیں چابیاں نہیں دیں، جس پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں، بچی تشدد کیس، جج کو کام سے روک دیا گیا

تشدد کی شکار بچی نے دعویٰ کیا کہ گھر میں افشاں نامی ایک دوسری ملازمہ کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پولیس کے مطابق بچی اور اس کے والدین کی درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا جبکہ 2 افراد کو گرفتار کرکے معاملے کی تفتیش کا آغاز کردیا گیا۔

ملتان میں بھی ملازمہ پر تشدد

ادھر ملتان کے علاقے عروج شالیمار کالونی میں واقع ایک گھر میں کام کرنے والی 10 سالہ بچی تشدد سے تنگ آکر فرار ہوگئی اور شالیمار ووکیشنل سینٹر پہنچ گئی۔

بچی مبینہ طور پر قصبہ یونین کونسل کے چیئرمین میاں عاصم خان کے ملتان میں موجود گھر میں ملازمہ ہے اور گھر میں پچھلے کئی سال سے کام کرتی ہے جبکہ بچی کا تعلق ملتان کے علاقے قصبہ مڑل سے ہے۔

بچی کے وکشنل سینٹر پہنچنے پر وہاں موجود خواتین نے علاقے کے کونسلر رانا شعیب نصرت کو اطلاع دی۔

کونسلر رانا شعیب نے سینٹر کی خواتین کو ہدایت کی کہ بچی کو جب تک اس کے گھر والے لینے نہیں آتے یا میاں عاصم کے گھر والےدوبارہ تشدد نہ کرنے کی یقین دہانی نہیں کرواتے تب تک بچی کو کسی کے حوالے نہیں کیا جائے۔

مبینہ طور پر 10 سالہ بچی کو روزانہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر مارا جاتا رہا جبکہ زیادہ مار پڑنے پر بچی گھر سے بھاگ کر شالیمار وکیشنل سینٹر آگئی۔

تاحال اس واقعے کی کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل سول ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ خرم کی اہلیہ کی جانب سے گھریلو ملازمہ 10 سالہ طیبہ کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ سامنے آنے کے بعد سول جج سے خدمات واپس لے لی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس پڑوسیوں کی 'سازش' ہے، اہلیہ جج

کمسن ملازمہ پر تشدد کا معاملہ اُس وقت منظرعام پر آیا تھا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا جبکہ چیف جسٹس نے معاملے کا ازخود نوٹس بھی لیا تھا۔

بعد ازاں مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والدین نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا، تاہم عدالت عظمیٰ نے بچی کو پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا تھا۔