پاکستان

ملک کے 63 اضلاع میں مردم شماری کا آغاز

مردم شماری کا پہلا مرحلہ 15 اپریل تک مکمل ہوجائے گا، جبکہ دوسرے مرحلے کا آغاز 25 اپریل سے ہوگا جو 25 مئی تک جاری رہے گا۔

اسلام آباد: 9 سال کی تاخیر کے بعد ملک کے 63 اضلاع میں مردم شماری کا آغاز ہوگیا۔

چیف شماریات آصف باجوہ نے ڈان کو بتایا کہ 'مردم شماری کے پہلے مرحلے کے تمام انتظامات مکمل کیے جاچکے ہیں جبکہ عملے تک بھی ضروری مواد پہنچادیا گیا ہے'۔

آصف باجوہ کے مطابق شمار کنندہ عملے میں مختلف محکموں کے 1 لاکھ 18 ہزار افراد شامل ہیں جن میں پاکستان شماریات بیورو سے تعلق رکھنے والا عملہ بھی شریک ہے، جبکہ ان تمام افراد کو مردم شماری کے لیے خصوصی تربیت فراہم کی گئی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ متعلقہ اضلاع میں 1 لاکھ 75 ہزار فوجی اہلکاروں کو بھی تعینات کیا گیا ہے، جو شمار کرنے کے ساتھ ساتھ سروے کرنے والے عملے کو سیکیورٹی بھی فراہم کریں گے۔

خیال رہے کے مردم شماری کا پہلا مرحلہ 15 اپریل تک مکمل ہوجائے گا، جبکہ دوسرے مرحلے کا آغاز 25 اپریل سے ہوگا جو 25 مئی تک جاری رہے گا۔

مردم شماری کے دوسرے مرحلے میں 87 اضلاع کو شمار کیا جائے گا، جبکہ مردم شماری کی رپورٹس 2 ماہ میں مکمل کرلی جائیں گی۔

چیف شماریات کا مزید کہنا تھا کہ مردم شماری کے اصل پلان میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی چھٹی مردم شماری، کیا کیا شمار ہوگا؟

سیاسی جماعتوں کی جانب سے مردم شماری کے حوالے سے مختلف تحفظات کے اظہار سے متعلق سوال پر آصف باجوہ کا کہنا تھا کہ وہ کسی کو بیان جاری کرنے سے نہیں روک سکتے تاہم طے شدہ اسکیم کے تحت مردم شماری کے عمل کو مکمل کریں گے۔

واضح رہے کہ صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی جانب سے سامنے آنے والی تشویش میں سب سے اہم اعتراض اندرون ملک ہجرت پر ہے۔

کچھ ایسے ہی تحفظات کا اظہار عارضی طور پر ہجرت کرنے والے قبائلی افراد کا بھی ہے، کیونکہ اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آئی ڈی پیز کو ان کے آبائی علاقوں میں شمار کیا جائے گا یا اس جگہ پر جہاں وہ فی الوقت قیام پذیر ہیں۔

اس حوالے سے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان مردم شماری پر اپنے تحفظات کے حوالے سے عدالت میں درخواستیں جمع کراچکے ہیں۔

دوسری جانب نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) مردم شماری کے پہلے مرحلے کے آغاز سے قبل ہی 3 لاکھ 50 ہزار کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز بلاک کرچکی ہے۔

چیف شماریات آصف باجوہ کا دعویٰ ہے کہ بلاک کیے گئے شناختی کارڈز میں سے زیادہ تر شناختی کارڈ افغان شہریوں کے ہیں تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نسل اور شہریت میں امتیاز کے بغیر مردم شماری کے دوران ملک میں مقیم تمام افراد کا شمار کیا جائے گا، جن میں غیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔

تاہم مردم شماری کی رپورٹ میں صرف اُن افغان باشندوں کو شامل کیا جائے گا جن کے پاس مستند پاکستانی شناختی کارڈ ہوں اور پاکستان شماریات بیورو جعلی شناختی کارڈز کی جانچ کے لیے نادرا کے ڈیٹا بیس کی مدد لے گا۔

مزید پڑھیں: مردم شماری سے حاصل معلومات صیغہ راز میں رکھی جائیں گی

اندرون ملک ہجرت کے معاملے پر آصف باجوہ کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں ہجرت کی ہے اور وہاں چھ ماہ سے مقیم ہیں انہیں میزبان صوبے کی آبادی میں ہی شمار کیا جائے۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے لکھے گئے خط کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ وہ صوبے کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش میں ہیں۔

منگل (14 مارچ) کو وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے سامنے آنے والے بیان میں کہا گیا کہ مردم شماری کے آسان اور شفاف عمل کو یقینی بنانے کے لیے شمار کنندہ عملے کے ہمراہ فوجی اہلکار بھی موجود ہوں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے ضلعی سطح پر کمیٹیاں بھی تشکیل دی جاچکی ہیں جو معلومات اکھٹا ہونے کے عمل کی جانچ پڑتال کریں گی۔

اسحٰق ڈار کے مطابق شفاف مردم شماری کا عمل تمام متعلقہ افراد کے تعاون اور حمایت سے ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔

شناختی کارڈز کی موجودگی کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے لیے ہر فرد کے قومی شناختی کارڈ کی شرط نہیں، خاندان کے سربراہ یا ذمہ دار شخص کا شناختی کارڈ ہی کافی ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر گھر کے کسی رکن کا شناختی کارڈ موجود نہیں تو وہ اس کے بجائے کوئی اور شناختی دستاویز پیش کرسکتا ہے جبکہ ایسا گھرجس میں کسی کے پاس بھی شناختی کارڈ موجود نہ ہوا، اس کا بھی شمار کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ ملک میں پہلی بار مردم شماری کا انعقاد 1951 میں کیا گیا تھا، دوسری مردم شماری 1961، تیسری 1971 کے بجائے 1972 جبکہ چوتھی بار 1980 میں مردم شماری کی گئی۔

1991 میں طے شدہ مردم شماری فوج کی مدد سے مارچ 1998 میں طے پائی۔

واضح رہے کہ منصفانہ وسائل کی تقسیم، پارلیمنٹ میں نمائندگی کے تعین، انتخابی عمل، ٹیکس وصولی، عوامی مسائل کے حل، بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے شمار سمیت ترقیاتی منصوبوں کے لیے وسائل کی تقسیم کا اندازہ لگانے کے لیے مردم شماری کو اہم ضرورت تصور کیا جاتا ہے۔

آئین پاکستان کے تحت حکومت ہر دس سال بعد مردم شماری کرانے کی پابند ہے۔


یہ خبر 15 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی