پیپلز پارٹی کا حسین حقانی سے لاتعلقی کا اعلان
اسلام آباد: پاکستان مخالف عناصر کے احکامات پر افواجِ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش کے الزام میں ارکان پارلیمنٹ نے امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔
اس حوالے سے سب سے اہم ریمارکس قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے دیئے، جنہوں نے نہ صرف سابق سفیر کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے الگ کرنے کا اعلان کیا بلکہ حسین حقانی کے حالیہ مضمون کو بھی 'غدارانہ فعل' قرار دیا۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اویس لغاری کی جانب سے اسمبلی میں اس معاملے کو اٹھائے جانے پر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ 'ہمیں ایسے لوگوں کو اہمیت نہیں دینی چاہیئے جو اس وطن کے سپوت ہوتے ہوئے بھی ملک سے باہر بیٹھ کر غداری کے مرتکب ہوتے ہیں'۔
خورشید شاہ کے مطابق 'حسین حقانی کا دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششوں کی تیاریاں جاری ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ حسین حقانی نے یہ کالم نئی امریکی انتظامیہ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے لکھا اور اسی لیے 'ایسے شخص کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی جانی چاہیئے'۔
خورشید شاہ کا مزید کہنا تھا کہ پی پی پی حکومت کو جب اندازہ ہوا کہ حسین حقانی کا تقرر ملکی مفاد میں نہیں رہا تو انہیں عہدے سے ہٹا کر شیری رحمٰن کو واشنگٹن میں سفیر مقرر کردیا گیا۔
اویس لغاری کا اس موقع پر کہنا تھا کہ حسن حقانی نے چند پاکستان مخالف عناصر کی حمایت کرتے ہوئے ملک کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے اور یہ کام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکی فوجی افسران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہ رہے ہیں اور ملک کا سابق سفیر یہ دعویٰ کررہا ہے کہ اسلام آباد دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو لے کر سنجیدہ نہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے پیپلز پارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ حسین حقانی کے اس دعوے کی سختی سے تردید کریں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے عارف علوی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے شیخ صلاح الدین نے حسین حقانی کے حالیہ بیان پر گہری تشویش کا اظہار کیا، ساتھ ہی ایم کیو ایم رکن اسمبلی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ایبٹ آباد انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو منظرعام پر لایا جائے تاکہ قوم حقائق جان سکے۔
سابق وزیر مملکت برائے خارجہ امور خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ حسین حقانی ایک اہم ترین عہدے کے لیے غلط انتخاب تھے۔
دوسری جانب سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے نہال ہاشمی کی جانب سے یہ معاملہ اٹھائے جانے پر پیپلز پارٹی کے رکن فرحت اللہ بابر نے اس کا جواب دیا۔
نہال ہاشمی نے حسین حقانی کے امریکیوں کو ویزا جاری کرنے کے دعوؤں پر سابق صدر آصف علی زرداری سے وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ سابق سفیر کہتے ہیں کہ سی آئی اے کو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پاکستان میں آپریشنز کرنے کی اجازت تھی.
انہوں نے سوال کیا کہ 'حسین حقانی جیسے لوگ کس کے لیے کام کرتے ہیں؟ امریکا اور نئی دہلی میں بیٹھے کسی بھی شخص کو پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی'۔
حکمراں جماعت کے سینیٹر کو جواب دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 'حسین حقانی یہ سب اپنی ذاتی صلاحیت میں کررہے ہیں، وہ پیپلز پارٹی کے ترجمان نہیں لہذا ان کے مضمون کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے'۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ریمارکس کو سابق صدر آصف علی زرداری پر اٹھائے گئے سوالات تک محدود رکھیں گے.
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں تمام امریکی شہریوں کو قوانین کے مطابق ویزے جاری کیے گئے اور اس میں کوئی غفلت نہیں برتی گئی.
واک آؤٹ
اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی نے وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابد شیر علی کی جانب سے پنجاب میں پیپلزپارٹی کے کارکنان پر حملوں کے حوالے سے دیئے گئے ریمارکس پر اسمبلی سے واک آؤٹ کیا.
وقفہ سوالات کے بعد خورشید شاہ نے ایوان کی توجہ لاہور میں پی پی پی کارکن سہیل بٹ کے قتل کی جانب مبذول کروائی اور الزام عائد کیا کہ مقتول کرکن نے یہ شکایت کی تھی کہ اسے مسلم لیگ (ن) کا حصہ بننے پر مجبور کیا جارہا تھا.
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے رہنما شوکت بسرا پر بھی بہاولنگر میں حملہ ہوچکا ہے تاہم پنجاب حکومت نے اب تک ملوث افراد کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا اور نہ ہی تاحال کوئی انکوائری رپورٹ جاری کی گئی.