پاکستان

سندھ: 13 اضلاع میں پانی 'انسانی استعمال کیلئے غیر محفوظ'

13 اضلاع سے حاصل کیے گئے پانی کے 70 فیصد نمونوں کی جانچ کے مطابق ان میں گھروں اور صنعتوں کا فضلہ موجود تھا۔

کراچی: وفاقی ادارے کی جانب سے سندھ کے 13 اضلاع ، جن میں کراچی کے 6 اضلاع بھی شامل ہیں، میں زمین کی سطح پر اور زیر زمین موجود پانی کے حاصل کیے گئے بیشتر نمونے انسانی استعمال کیلئے غیر محفوظ قرار دیئے گئے ہیں۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) نے سکھر، لاڑکانہ، شکارپور، ٹنڈو محمد خان، بدین ، تھرپارکر، حیدرآباد اور کراچی کے 6 اضلاع —شرقی، غربی، جنوبی، وسطی، ملیر اور کورنگی — سے پانی کے 300 نمونے حاصل کیے تھے اور ان کا ایک تفصیلی بیکٹیریل تجزیہ کیا گیا۔

پی سی آر ڈبلیو آر کے ڈاکٹر غلام مرتضیٰ نے بتایا کہ 'ہم سندھ میں گذشتہ کئی سالوں سے پانی کے نمونوں کی جانچ کا کام کررہے ہیں اور میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ صوبے کے مختلف حصوں کو فراہم کیے جانے والے پانی کے معیار میں بہتری نہیں آئی ہے'۔

ان کے مطابق کراچی، حیدرآباد اور سکھر — 3 اضلاع کو فراہم کیے جانے والے پانی کی سپلائی 2005 سے مانیٹر کی جارہی ہے — میں انتہائی خراب معیار کا پانی فراہم کیا جارہا ہے۔

ڈاکٹر مرتضیٰ کاکہنا تھا کہ 'پانی کے معیار میں بہتری اس وقت ہی آسکتی ہے جب پانی کے آلودہ عوامل کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں، ان میں پینے کے صاف پانی کی لائینوں میں سیورج کی ملاوٹ، فلٹر پلانٹس کی کمی، غیر مناسب کلورینیشن اور پانی کے ذخائر میں صنعتی اور گھریلو فضلے کی آلودگی شامل ہے'۔

انھوں نے کہا کہ حالیہ تجزیے کے مطابق سندھ میں پانی کے 70 فیصد نمونے انسانی استعمال کیلئے نامناسب یا غیر محفوظ تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیشتر نمونے شہری علاقوں سے حاصل کیے گئے تھے، جن کو فراہم کیے جانے والے پانی میں بڑے پیمانے پر آرسینک یا زہریلا مادہ شامل نہیں ہوتا۔

انھوں نے بتایا کہ 'یہ معاملہ خیرپور، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو اللہ یار، ٹھٹھہ، جامشورو اور نوشہرو فیروز کے زیر زمین پانی کے حوالے سے ہونے والی ماضی کی تحقیقات میں بھی سامنے آیا تھا'۔

حالیہ تجزیہ کے نتائج

کراچی سے حاصل کیے گئے 80 فیصد نمونوں میں جراثیم موجود تھے، جن میں سے 30 فیصد نمونوں میں انسانی فضلہ بھی شامل تھا۔

آدھے سے زائد نمونوں میں ٹی ڈی ایس کی بلند سطح جبکہ پانی میں سختی اور سلفیٹ، سوڈیم اور کلورائد کی ضرورت سے زائد موجودگی کی وجہ سے یہ انسانی استعمال کے لیے غیر محفوظ تھے۔

کراچی سے جانچ کیلئے حاصل کیے گئے 20 فیصد نمونے استعمال کے قابل تھے۔

حیدرآباد، لاڑکانہ اور سکھر سے حاصل کیے گئے پانی کے نمونوں کے نتائج بھی کراچی جیسے ہی ہیں، جہاں 80 فیصد نمونے انسانی استعمال کیلئے غیر محفوظ اور ان میں جراثیم موجود تھے، بیشتر نمونوں میں ٹی ڈی ایس، سلفیٹ، سختی، کلشیم، کلورائیڈ اور فولاد ضرورت سے زیادہ موجود تھا۔

ادھر ٹنڈو محمد خان اور بدین کے اضلاع سے حاصل کیے گئے نمونوں بھی ٹی ڈی ایس کی زائد مقدار اور جراثیم کی موجودگی جبکہ ضرورت سے زائد سختی، کلشیم، مینیشیم، سوڈیم، کلورائڈ اور فولاد کی زائد مقدار کے باعث انھیں غیر محفوظ قرار دیا گیا۔

یہاں تک کہ ٹنڈو محمد خان اور بدین سے حاصل کیے گئے پانی کے 50 سے 60 فیصد نمونے جراثیم کی موجودگی کے باعث غیر محفوظ تھے، دوسری جانب ان اضلاع کے 30 سے 40 فیصد پانی کے نمونے محفوظ پائے گئے۔

ضلع تھرپارکر کیلئے پانی کے ذخائر پر نصب سپلائی کے پلانٹ سے حاصل کیے گئے نمونوں میں آدھے سے زائد میں جراثیم اور زائد ٹی ڈی ایس کی موجودگی کی وجہ سے غیر محفوظ پائے گئے۔

اس کے علاوہ بیشتر نمونوں میں سوڈیم اور کلورائڈ کی مقدار زیادہ تھی۔

پی سی آر ڈبلیو آر کے ماہرین کے مطابق حالیہ نتائج گذشتہ سال شائع ہونے والی ملٹیپل انڈیکیٹر کلسٹر سروے رپورٹ سے مماثلت رکھتے ہیں۔

پی سی آر ڈبلیو آر نے 2014 میں سندھ کے 5 اضلاع — جو موجودہ جانچ کا حصہ نہیں تھے — ان میں جیکب آباد، کشمور-کندھ کوٹ، شکارپور، خیرپور اور گھوٹکی شامل ہیں میں پانی کی جانچ کا کام کیا تھا، جس کے مطابق زیر زمین پانی کے نمونے 58 فیصد غیر محفوظ تھے۔

ان میں بیشتر جراثیم سے آلودہ تھے جبکہ ان میں ٹی ڈی ایس، سختی، کلشیم، سوڈیم، پوٹاشیم، کلورائڈ، فلورائڈ، نائیٹریٹ اور فولاد کی زیادتی موجود تھی۔

یہ رپورٹ 5 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی