پاکستان

طیبہ تشدد کیس: پولیس کو 2 ہفتے میں چالان پیش کرنے کا حکم

ملزمان کی جانب سے حاضری سے استثنا کی درخواست عدالت نے منظور کرلی۔
|

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ تشدد کیس میں پولیس کو دو ہفتوں میں مکمل چالان پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد کے جوڈیشل مجسٹریٹ حیدر شاہ نے طیبہ تشدد کیس کی سماعت کی، دوران سماعت ملزمان راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر دو مرتبہ کیس کال ہونے کے باوجود پیش نہ ہوئے۔

دوران سماعت ملزمان کی جانب سے حاضری سے استثنا کی درخواست دائر کی گئی جسے عدالت نے منظور کر لیا۔

تاہم اس سماعت میں بھی ملزمان کو مقدمہ کی نقول تقسیم کرکے فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کا آغاز نہیں کیا جا سکا۔

جس کے بعد عدالت نے ملزمان کو 25 مارچ کو حاضری یقینی بنانے کاحکم دیتے ہوئے کیس سماعت ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے کیس کے مرکزی ملزم ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم کی اہلیہ ماہین ظفر نے سارے معاملے کو سازش قرار دیتے ہوئے وزارت داخلہ کو ایک درخواست جمع کرائی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جڑواں شہروں سے تعلق رکھنے والا ایک بااثر قبضہ مافیا کا سرغنہ اس 'سازش' میں ملوث ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ قبضہ مافیا نے من گھڑت کہانی کے ذریعے جج راجا خرم علی خان کی کردار کشی کی اور طیبہ پر تشدد کو سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل کرکے منفی پروپیگنڈہ کیا گیا۔

طیبہ تشدد کیس — کب کیا ہوا؟

کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ دسمبر 2016 کے آخر میں اُس وقت منظرعام پر آیا تھا، جب تشدد زدہ بچی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی جبکہ اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے، تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

دوسری جانب تشدد کے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے سیشن جج اور ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ چند پڑوسیوں نے مبینہ طور پر ان کے خلاف 'سازش' کی، ملزم جوڑے کے مطابق انہوں نے والدین کی غربت کو دیکھتے ہوئے بچی کو انسانی ہمدردی کی بناء پر اپنے گھر میں رکھا تھا۔

بعدازاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کم سن ملازمہ پر ہونے والے تشدد پر ازخود نوٹس کیس کو مزید ٹرائل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا۔

10 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران طیبہ کے والد نے ملزمان کو ایک مرتبہ پھر معاف کرنے کا بیان حلفی جمع کرادیا تھا، جس پر عدالت نے جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔