پاکستان

حکومت فوجی عدالتوں کی جلد بحالی کیلئے کوشاں

ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی عدالتوں پر فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، اسحاق ڈار

اسلام آباد: فوجی عدالتوں کی بحالی پر ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لیے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کو فون کیا اور حالیہ دہشت گردی کے تناظر میں ان عدالتوں کی جلد بحالی پر زور دیا۔

اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کو بھی فون کرکے فوجی عدالتوں کے حوالے سےقائم پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی درخواست کی تاکہ جلد از جلد فیصلہ کیا جا سکے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اسحاق ڈار نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے بھائی مولانا عطاء الرحمٰن، قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر، پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور قومی وطن پارٹی( کیو ڈبلیو پی) کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ سے رابطہ کیا۔

ٹیلی فون پر گفتگو کے دران وزیر خزانہ نے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

اسحاق ڈار نے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے ( فاٹا)، پشاور، سیہون، کوئٹہ، لاہور اور آواران کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر انہیں تکلیف ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مؤثر اور مربوط جواب وقت کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'فوجی عدالتوں کی مدت میں 3 سالہ توسیع کی تجویز'

انہوں نے پارلیمانی لیڈر ز کے ساتھ گفتگو میں مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف مہم کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے فوجی عدالتوں کی بحالی لازمی ہے اورپارلیمنٹ میں موجود سیاسی قیادت کو اس معاملے پر اتحاد اور اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عوام کی حفاظت اور ملک کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔

بیان کے مطابق پارلیمانی رہنماؤں نے دہشت گردی کے خطرات کا مربوط اور مؤثر جواب دینے کے معاملے پر وزیر خزانہ سے اتفاق کیا۔

اس سے پہلے 16 فروری کو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت فوجی عدالتوں سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت نے فوجی عدالتوں کی مدت میں 3 سال کی توسیع کا مجوزہ ترمیمی بل پیش کیا۔مگر حزب اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے کسی گارنٹی اور بین الجماعتی فیصلوں کے بغیر مجوزہ بل کے مسودے کی مخالفت کی گئی۔

تاہم حزب اختلاف کے رہنماؤں نے مسودے کا جائزہ لینے کے لیے وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی کے قیام پر اتفاق کیا تھا، جس کے بعد اعلان کیا گیا کہ نئی کمیٹی کا پہلا اجلاس 22 فروری کو منعقد ہوگا، جب کہ پارلیمانی رہنما 27 فروری کو معاملے پر غور کے لیے دوبارہ اکٹھے ہوں گے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وزیر خزانہ نے ان سے ٹیلی فون پر فوجی عدالتوں کی بحالی پر مدد مانگی اور اس حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے جلد اجلاس بلانے کا کہا۔

پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسحاق ڈار پر واضح کیا کہ اگر حکومت صرف دکھاوے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرنا چاہتی ہے کہ وہ اس ضمن میں کوششیں کر رہی ہے مگر دوسرے اس کی کوششوں سے اتفاق نہیں کرتے تو ہم بھی اس کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کا مستقل قیام: 'نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی'

ان کے مطابق اگر حکومت اس حوالے سے اتفاق رائے سے فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو اسے سیاسی قیادت کے خدشات دور کرنا ہوں گے۔

فوجی عدالتوں سے متعلق حکومتی مسودے کو مکمل طور پر مسترد کرنے والے نوید قمر کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو خدشہ ہے کہ حکومت مجوزہ مسودے کو بھی انسداد دہشت گردی ایکٹ کی طرح سیاسی انتقام کے لیے استعمال کرے گی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اس معاملے پر کمیٹی بنانے اور اس میں شرکت کے لیے رضامند ہے، ہم نے اس حوالے سے سیاست کے دروازے بند نہیں کیے۔

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما سید خورشید شاہ کی جانب جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی نااہلیوں کی وجہ سے ملک میں حالیہ دہشت گردی کی لہر آئی اور وہ ہی اس کی ذمہ دار ہے۔

ان کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے والے اداروں اور وسائل پر حکومت کا کنٹرول ہے، مگر یہ ادارے حکومت کی نااہلی کی وجہ سے کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

خورشید شاہ نے خصوصی طور پر وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ پر تنقید کرتے ہوئے ان پر مسائل سے نہ نمٹنے کا الزام عائد کیا۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ حکمران پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال ہونے کے حوالے سے ملکی و غیر ملکی سیاق و سباق کی صورتحال کا جائزہ لینے میں ناکام رہے ہیں۔

علاوہ ازیں فوجی عدالتوں سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بعد شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ وہ اس حوالے سے حکومت کی مکمل گارنٹی چاہتے ہیں، کیوں کہ حکومت نے 2 سال قبل منظور کی گئی اکیسویں آئینی ترمیم کے وقت کئے گئے وعدوں پر بھی عمل نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کی مدت ختم

انہوں نے حکومت کو اس کی اپنی ناکامی پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے وقت حکومت نے سیاسی جماعتوں سے عدالتی اصلاحات کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے حملے کے بعد 6 جنوری 2015 کو آئین میں 21 ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ 2015 (ترمیمی) کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد فوجی عدالتوں کو خصوصی اختیارات دیے گئے تھے جس کا مقصد ان سول افراد کا ٹرائل کرنا تھا جن پر دہشت گردی کے الزامات تھے۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے اس خوف کے باوجود کہ فوجی عدالتوں سے ملک کا جمہوری نظام کمزور ہوسکتا ہے پھر بھی عدالتوں کی مشترکہ طور پر منظوری دی تھی۔

پارلیمنٹ نے آئین میں 21 ویں ترمیم کی منظوری دے کر عدالتوں کے قیام کو یقینی بنایا۔

واضح رہے کہ اس وقت فوجی عدالتیں 2 سال کا آئینی تحفظ ختم ہونے کے بعد 7 جنوری 2017 سے غیر فعال ہیں۔


یہ خبر 19 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی