پاناماکیس:’1999میں تمام خاندانی دستاویزات ضائع ہوچکی ہیں‘
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کی درخواستوں کی سماعت کا سلسلہ 15 روز بعد دوبارہ شروع ہونے پر وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں کے وکیل ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ 4 جنوری سے ان درخواستوں کی سماعت کررہا تھا، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔
31 جنوری کو کیس کی آخری سماعت کے بعد لارجر بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کو سینے میں اچانک درد کی وجہ سے ہسپتال لے جایا گیا، جس کے بعد وہ انجیوپلاسٹی کے عمل سے گزرے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید کی علالت کے پیش نظر پانچ رکنی لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیس کی سماعت 6 فروری تک ملتوی کردی تھی۔
تاہم ڈاکٹرز کی جانب سے جسٹس شیخ عظمت سعید کو آرام کے مشورے کے باعث سماعت کو مزید ملتوی کردیا گیا تھا۔
سماعت کے دوبارہ آغاز پر ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجا نے صحتیاب ہو کر آنے والے جسٹس شیخ عظمت سعید کو خوش آمدید کہا جبکہ دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ میرے سامنے کل آٹھ سوال رکھے گئے تھے۔
سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ نہ عدالت میں ٹرائل جاری ہے اور نہ ہی ان کے موکل گواہ ہیں، لہذا جتنا ریکارڈ موجود ہے وہ اس کے مطابق جواب دیں گے۔
سلمان اکرم راجا کے مطابق 40-45 سال کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، جبکہ 1999 کے مارشل لاء کی وجہ سے تمام خاندانی دستاویزات ضائع ہوچکی ہیں۔
حسن اور حسین نواز کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے خلاف کوئی چارج نہیں، اس لیے ان کے بچوں کے خلاف بھی کارروائی ممکن نہیں، اور اگر وزیر اعظم کے بچوں کو نیب کے قانون کے تحت ملزم مانا جائے تو بارِ ثبوت میرے موکل کے سر نہیں آتا۔
سلمان اکرم راجا کے مطابق پاناما کیس کوئی فوجداری مقدمہ نہیں، اس لیے اگر حسن اور حسین نواز ملزم بھی ہیں، تو ان کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں۔
اپنے دلائل میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ارسلان افتخار کیس میں عدالت کہہ چکی ہے کہ ٹرائل صرف متعلقہ فورم پر ہو سکتا ہے جبکہ معاملہ تحقیقات کے لیے اداروں کو بھجوایا جاسکتا ہے، کیونکہ عدالت نے کبھی فوجداری مقدمات کی تحقیقات نہیں کیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا قطری سرمایہ کاری سے متعلق استفسار
سلمان اکرم راجا کے مطابق آرٹیکل 10 ہر شخص کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے۔
لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف کھوسہ نے سلمان اکرم راجا کو ہدایت دی کہ وہ پہلے اپنے دلائل مکمل کرلیں اس کے بعد سوالات کے جواب دیں۔
سلمان اکرم راجا نے سوالات دہراتے ہوئے کہا کہ عدالت میں میاں شریف اور الثانی خاندان کے تعلق، نیلسن اور نیسکول کے شیئرز مالی فوائد، اور ٹرسٹ ڈیڈ پر سوال اٹھائے گئے اور وہ ان سب کے جواب دیں گے۔
سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ یہ واضح کرچکی ہے کہ عوامی مفاد کے مقدمے میں کسی کو ملزم قرار نہیں دیا جاسکتا
ان کا مزید کہنا تھا کہ قانون کے مطابق بنائے گئے اداروں کو ان کا کام کرنے دیا جائے، سپریم کورٹ خود انکوائری نہیں کر سکتی صرف کمیشن بنانے کا حکم دے سکتی ہے۔
ماضی میں ہونے والے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں طرف کے حقائق جاننے کے بعد عدالت معاملہ کسی مناسب فورم پر بھیج سکتی ہے، جیسے کہ این آئی سی ایل اور حج کرپشن کیس میں عدالت نے دوسرے فورم سے تحقیقات کرائیں۔
سلمان اکرم راجا نے سوال کیا کہ کیا عدالت 184/3 کے تحت کسی دوسری عدالت کا اختیار حاصل کرسکتی ہے؟
اس موقع پر انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا عدالت کا قائم کردہ کمیشن فوجداری مقدمے کی طرح کیس کا ٹرائل کر سکتا ہے؟
جس پر عدالت نے انہوں دوبارہ ٹوکتے ہوئے اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ وہ دلائل مکمل کرنے کے بعد ایسے قانونی سوالات کے جواب دیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم راجا سے دریافت کیا کہ کیا وہ یہ واضح کرسکتے ہیں کہ لندن فلیٹس کیسے خریدے گئے؟
سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ یہ موقف اپنایا جاتا ہے کہ حسن نواز نے لندن فلیٹس دادا کے کاروبار کے ذریعے لیے جبکہ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ فلیٹس وزیر اعظم کی ملکیت ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ درخواست گزار فلیٹس کے لیے 1999 کے لندن کے عدالتی فیصلے کا سہارا لیتا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم کی ہے اور ان فلیٹس کی ملکیت پر کوئی تنازع نہیں، کیا عدالت یہ وضاحت طلب کرسکتی ہے یہ فلیٹس بچوں نے کیسے خریدے؟
سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ یہ فلیٹس دراصل حسین نواز نے اپنے دادا کے کاروبار سے خریدے تھے تاہم درخواست گزار کا موقف ہے کہ یہ فلیٹس وزیراعظم نے غلط طریقے خریدے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ریکارڈ پر ایسی کسی بھی بدعنوانی کا ذکر موجود نہیں لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عہدے کا استعمال کرتے ہوئے لندن فلیٹس خریدے گئے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ رحمان ملک نے اپنی رپورٹ تیار نہیں کی تھی۔
جس پر وکیل کا کہنا تھا رحمان ملک نے معطلی کے دوران لندن فلیٹس کے بارے میں رپورٹ تیار کی تھی تاہم رحمان ملک کو سرکاری سطح پر کوئی تحقیقات نہیں سونپی گئیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سلمان اکرم راجا سے سوال کیا کہ رحمان ملک نے اپنی رپورٹ میں جن اکاؤنٹس کا ذکر کیا تھا کیا اس سے انکار کر سکتے ہیں؟
رحمٰن ملک کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ بھی اس رپورٹ کو مسترد کرکے ملزمان کو بری کر چکا ہے، اور قانون کی نظر میں رحمان ملک کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ منروا کمپنی کی ڈائریکٹر شیزی نقوی کا لندن میں دیا گیا بیان حلفی رحمان ملک کی رپورٹ کی بنیاد پر تھا اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ 1999 میں لندن فلیٹس وزیر اعظم کے تو کیا شریف خاندان کے بھی نہیں تھے۔
وکیل حسن نواز کا کہنا تھا کہ 1993 سے 1996 کے دوران الثانی خاندان نے یہ فلیٹس خریدے اور جنوری 2006 میں الثانی خاندان نے فلیٹ کے بیریئر سرٹیفیکیٹ حسین نواز کے حوالے کیے، جس کے بعد جولائی 2006 میں ان بیریئر سرٹیفیکیٹ کے شیئرز منروا کمپنی کو ملے۔
جسٹس عظمت شیخ سعید نے سلمان اکرم راجا سے دریافت کیا کہ اس تمام کا ریکارڈ کہاں موجود ہے اور وہ یہ ریکارڈ کب پیش کریں گے؟ 'آپ ادھر ادھر کی چھلانگیں لگا رہے ہیں، دستاویز ہیں تو عدالت کو دکھائیں'۔
سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ قطری خاندان سے سمجھوتے کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ شریف خاندان کو ملے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ سمجھوتا حماد بن جاسم سے ہوا یا الثانی خاندان سے؟
سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ یہ سمجھوتا محمد بن جاسم کے ساتھ طے پایا۔
جسٹس آصف کھوسہ نے سوال کیا کہ دوسرے قطری خط میں لکھا تھا کہ سرٹیفکیٹ بھیجے گئے تاہم یہ نہیں واضح کیا کہ سرٹیفکیٹ حسین نواز کو دیا گیا ہے۔
سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے نمائندے نے حسین نواز کے نمائندے کے حوالے کیے تھے۔
جسٹس آصف کھوسہ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ انہیں قطری خط زبانی یاد ہوچکے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا دبئی فیکٹری کے 12 ملین درہم الثانی خاندان کے پاس پڑے رہے؟ اور 26 سال تک یہ پیسہ بڑھتا رہا؟ کیا اس سرمایہ کاری کا دستاویزی ثبوت موجود ہے؟
مزید پڑھیں: 'قطر کے شاہی خاندان کو 12 ملین درہم دیے تھے'
سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ اس سب کا ریکارڈ رکھا گیا ہوگا مگر اس وقت دستیاب نہیں ہے، کیونکہ 1999 میں شریف فیملی کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا تھا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ حسین نواز کی جانب سے کہا گیا کہ ان کے دادا نے یہ فلیٹس ان کی تعلیم کے لیے خریدے یعنی دو طالب علموں کے لیے لندن میں چار فلیٹس کا بندوبست کیا گیا۔
جس پر سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ تیسرا طالب علم حمزہ شہباز بھی تھا۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آج آپ ایک اور طالب علم سامنے لے آئے ہیں۔
سلمان اکرم راجا کے مطابق وہ یقین سے تو نہیں کہہ سکتے لیکن ان کا خیال ہے کہ حمزہ شہباز بھی لندن میں طالبعلم تھے۔
سلمان اکرم راجا کے مطابق جولائی 2006 میں شیئرز منسوخ کر کے منروا کے نام پر جاری کیے گئے جبکہ 2014 میں شیئرز ٹرسٹی سروسز کو منتقل ہو گئے، اور ان شیئرز کی منتقلی حسین نواز کی ہدایت پر کی گئی۔
جسٹس گلزار کے اس سوال پر شریف خاندان سے پہلے منروا کو سروسز کون فراہم کرتا تھا سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ کمپنیوں کو ہی مالکان کا پتہ ہوتا ہے۔
جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ اگر شیئرز سرٹیفکیٹ گم ہو جائیں تو مالکان کس سے رابطہ کریں گے؟ کمپنیوں اور شیئرز کا ریکارڈ کہیں نہ کہیں تو موجود ہوتا ہی ہو گا۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے معاملہ ریکارڈ پر نہیں، یادداشت پر چلتا ہے اور منروا کمپنی کا خط بھی یادداشت پر مبنی ہے۔
سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ2014 میں منروا کی سروسز ختم کر دی گئی تھیں اور اب یہ منروا کی صوابدید ہے کہ وہ کیا ریکارڈ دیتی ہے اور کیا نہیں۔
سلمان اکرم راجا کا مزید کہنا تھا کہ وہ حسین نواز سے کہیں گے کہ منروا سے 2006 کا ریکارڈ حاصل کریں۔
سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ حسین نواز کے نمائندے نے پہلے بھی منروا کمپنی کے نمائندے کو ای میل لکھی تھی اور مریم نواز کے بینیفشل مالک ہونے کی دستاویز طلب کی تھی تاہم ای میل کے جواب میں منروا کمپنی نے دستاویز کی تردید کردی۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ منروا کے جواب میں کہیں نہیں لکھا کہ مریم نواز کے دستخط جعلی ہیں۔
سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ منروا کمپنی نے 2005 کے دستاویز سے لا تعلقی کا اظہار کیا تھا۔
جس پر جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ عدالت کو مصدقہ دستاویزات آخر کون فراہم کرے گا؟ اور ہمیں اصل معلومات تک رسائی کیسے ممکن ہو گی؟
سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ جو ریکارڈ دستیاب ہے وہ عدالت کو فراہم کر دیا گیا ہے اور مزید بھی جو کچھ ممکن ہوا فراہم کیا جائے گا۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ ہم اس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں اور نئے نئے مفروضے سامنے آتے جا رہے ہیں، کوئی فریق بھی مکمل سچ سامنے نہیں لا رہا۔
سلمان اکرم کا عدالت کو کہنا تھا کہ وہ نہ ہی ملزم ہیں اور نہ ہی گواہ۔
سلمان اکرم راجا کا عدالت کو کہنا تھا کہ میاں شریف اور شیخ جاسم کے تعلقات کو نکالیں تو صرف دو دستاویزات عدالت کے سامنے موجود نہیں، جو منروا اور ٹرسٹی سروسز کے ساتھ معاہدے کی دستاویزات ہیں۔
جس پر جسٹس اعجازافضل کا کہنا تھا کہ قطری خاندان اور شریف خاندان کے درمیان معاملات طے ہونے کے دستاویزات بھی عدالت کو نہیں ملیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ قطری سرمایہ کاری 26 سال الثانی خاندان کے پاس رہیں اور میاں شریف کی ہدایت پر الثانی خاندان بوقت ضرورت رقم بھی فراہم کرتا رہا، قطری سرمایہ کاری اور ان معاملات کا کوئی تو ریکارڈ موجود ہوگا؟
سلمان اکرم کے مطابق میاں شریف کی زندگی میں حسن نواز کو کاروبار کے لیے قطری فنڈز ملے جبکہ جدہ مل کے لیے بھی فنڈز کا بندوبست میاں شریف نے کیا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جدہ مل 63 ملین ریال میں 2005 میں فروخت ہوئی جبکہ اتفاقیہ طور پر جدہ مل خریدنے والی کمپنی کا نام بھی اتفاق تھا۔
سلمان اکرم کے مطابق شریف فیملی کے ساتھ صرف ایک شاہی خاندان کے تعلقات نہیں تھےمگر بعض وجوہات کی بناء پر وہ دیگر شاہی خاندانوں کے نام فراہم نہیں کرسکتے۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ درخواست گزاروں نے چیئرمین نیب اور ایف بی آر کے خلاف کارروائی کی استدعا کی ہے، کہا گیا ہے کہ ادارے کام نہیں کر رہے اس لیے عدالت اپنا دائرہ اختیار استعمال کرے۔
جس کے بعد عدالت نے سلمان اکرم راجا کو کل تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
8 سوالات کے جواب عدالت میں جمع
دوران کارروائی حسین اور حسن نواز کے وکیل نے 8 عدالتی سوالوں کا جواب جمع کرادیا۔
جواب میں لکھا گیا ہے کہ مؤکل کی جمع کرائی گئی دستاویزات کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا، اور مزید دستاویز فراہم کرنا ان کی ذمہ داری نہیں۔
جواب میں عدالت کو مزید بتایا گیا ہے کہ عدالت تفتیش طلب معاملے کی تفتیش کرنے کا اختیار رکھتی ہے، کیا عدالت کسی فرد یا افراد کو ٹرائل کے بغیر سزا دے سکتی ہے؟ کیا یہ عدالت نیب آرڈینیس 1999 کے تحت کرپشن کےمقدمے کا ٹرائل کرسکتی ہے اور کیا عدالت تفتیش طلب معاملے میں بغیر ثبوتوں کے کسی نتیجے تک پہنچ سکتی ہے؟
جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کیا یہ عدالت شریف فیملی یا وزیراعظم کی گزشتہ 45 سال سے ہونے والی مبینہ بے ضابطگی کی انکوائری کا حکم دے سکتی ہے۔علاوہ ازیں کیا سپریم کورٹ میں ٹرائل کرکے کسی فرد کو اپیل کے حق سے محروم رکھ سکتی ہے؟
التواء سے قبل کی سماعت
یاد رہے کہ 31 جنوری کو ہونے والی کیس کی آخری سماعت میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجا کو خبردار کیا تھا کہ وہ لندن فلیٹس سے متعلق شواہد بیان نہ کرکے بڑا رسک مول لے رہے ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری اور وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان، مریم نواز، کیپٹن صفدر اور وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے وکیل شاہد حامد سمیت جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کی نمائندگی کرنے والے توفیق آصف بینچ کے سامنے اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں۔
سلمان اکرم راجا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکلاء کو دلائل پیش کرنے کا حکم دے سکتی ہے کیونکہ ان دونوں اداروں کو عمران خان نے اپنے پٹیشن میں فریق نامزد کیا تھا۔
جس کے بعد ان وکلاء کے دلائل کا جواب دینے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری روسٹرم سنبھالیں گے۔
خیال رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان جماعت اسلامی کی پٹیشن پر اپنا تحریری جواب جمع کراچکے ہیں جس کے بعد وہ 13 فروری سے 26 فروری تک جنرل ایڈجرنمنٹ (غیر حاضری) کی درخواست دے چکے ہیں۔
نئے شواہد
دوسری جانب کیس کی دوبارہ سماعت سے قبل ہی پاکستان تحریک انصاف نے مزید 3 دستاویزات عدالت میں پیش کرنے کا اعلان کیا۔
پی ٹی آئی کے مطابق یہ شواہد نواز شریف اور ان کے اہلخانہ کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل کو غلط ثابت کردیں گے۔
ترجمان پی ٹی آئی فواد چوہدری کے مطابق عمران خان عدالت میں اپنے پچھلے تمام شواہد کی تصدیق کا ایک حلف نامہ بھی جمع کرائیں گے۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کا ڈان سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے وکلاء اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں اور تمام شواہد بھی جمع کراچکے ہیں، دلائل ختم ہونے کے بعد وہ مزید دستاویزات کیسے جمع کراسکتے ہیں۔