دنیا

امریکا کتنی اقوام اور کن طبقات پر پابندی لگا چکا ہے؟

امریکا نے گزشتہ 200 سال میں ایران پر پہلے بھی پابندی لگائی، پابندیوں کی زد میں یہودی اور چینی بھی آئے، رپورٹ

امریکا میں یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی صدر کی جانب سے تارکین وطن کے پروگرام کو معطل کرنے سمیت کسی مخصوص طبقے کی امریکا آمد پر پابندی عائد کی ہو بلکہ اس سے پہلے بھی کم سے کم 6 بار مختلف اقوام اور فرقوں کے لوگوں پر امریکا میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے البتہ 7 مسلم ممالک کے شہریوں کے لیے 4 ماہ اور عام تارکین وطن کے لیے 3 ماہ کی پابندی کو اس حوالے سے پہلا قدم قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس عمل کے ذریعے بیک وقت اتنے ممالک اور عام تارکین وطن پر پابندی عائد کی گئی۔

عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق امریکا کی گزشتہ 200 سالوں کی تاریخ میں کم سے کم 6 بار مختلف قوموں، طبقوں اور نظریات کے لوگوں پر بھی مختلف امریکی صدور نے پابندی عائد کی۔

چینیوں کا انخلاء اور ان پر پابندی

امریکا میں غیر ملکیوں پر پہلی پابندی صدر چیسٹر نے نافذ کی—فوٹو: وکی پیڈیا

امریکا کی جدید تاریخ میں پہلی بار امریکی صدر چیسٹر ایلن آرتھر نے 6 مئی 1882 میں چینیوں کے انخلاء کا ایکٹ نافذ کردیا تھا، جس کے تحت اس وقت امریکا میں موجود چینی افراد پر سختیاں نافذ کرکے کان کنی کا کام کرنے والے چین کے تمام تجربہ کار اور غیر تجربہ کار افراد پر آئندہ 10 سال تک پابندی لگادی تھی۔

یہ پابندی 1892 میں ختم ہونا تھی ، مگر اس کو ’دی گیری ایکٹ‘کا نام دے کر مزید 10 سال تک بڑھایا گیا اور اس دوران وہاں رہائش پذیر چینی باشندوں پر رہائشی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔

تاہم چین کے باشندوں پر ایسی پابندیاں 1943 تک جاری رہیں، جس کے بعد ’میگونوسن ایکٹ‘ کے تحت ان پر عائد پابندیوں میں نرمی کی گئی، البتہ پھربھی ان پر کاروبار اورملکیت کا مالک بننے پر پابندی عائد رہیں۔

دوسری جنگ عظم کے متاثریہودی مہاجرین پر پابندی

امریکا نے بہت ہی کم یہودی مہاجرین کو پناہ دی—فوٹو: theatlantic.com

جنگ عظیم دوئم کی ہولناک تباہی میں جہاں دیگر لاکھوں لوگ متاثر ہونے کے بعد مہاجر بن گئے تھے، وہیں نازی جرمنی میں مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بننے والے یہودی بھی مہاجرین میں شامل تھے، مگر اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے ان مہاجرین کو امریکا کی قومی سلامتی کے لیے سیکیورٹی رسک قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کردی تھی۔

امریکا نے جنگ عظیم دوئم کے بعد متاثر ہونے والے صرف 26 ہزار یہودیوں کو پناہ دی۔

انارکسٹوں پر پابندی

انارکسٹوں کے ساتھ ساتھ پہلی بار مرگی کے مریضوں پر بھی پابندی لگائی گئی—فوٹو: رائٹرز

سابق امریکی صدر ولیم مکنلی کو 1901 میں پولش مہاجر کے بیٹے امریکی انارکسٹ لیون چولوگوسز نے گولی ماری، اس واقعے کے بعد 1903 میں صدر تھیوڈور روزویلٹ نے انارکسٹ ذہنیت اور دیگرسیاسی انتہاپسند لوگوں پر پابندی عائد کردی تھی۔

یہ پہلا موقع تھا جب امریکا میں امیگریشن قوانین کو تبدیل کرتے ہوئے اس میں مرگی کے مریضوں، بھکاریوں اور درآمدات کا کاروبار کرنے والوں سمیت جسم فروشوں پر پابندی عائد ہوئی۔

کمیونسٹوں پر پابندی

صدر ہیری ٹرومین نے اس پابندی کی مخالفت کی—فوٹو:biography.com

امریکا کی کمیونسٹ نظریئے سے جنگ یا مخالفت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، اس دنیا میں اگر کمیونسٹ نظریئے کا کوئی سب سے بڑا مخالف ہے تو وہ خود امریکا ہے، اسی لیے امریکی کانگریس نے 23 اگست 1950 کو ’انٹرنل سیکیورٹی ایکٹ‘ کو منظور کرتے ہوئے کمیونسٹ نظریئے یا پارٹی سے وابستہ افراد پر امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کی۔

اس بل کی امریکی صدر ہیری ٹرومین نے مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا، یہ بل ہمارے بل آف رائٹ کے خلاف ہے، اور یہ ہمارے لیے مذاق بن جائے گا، بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس ایکٹ کے کئی شقوں کو 1983 میں غیر آئینی قرار دیا۔

ایران کے شہریوں پر پابندی

ایرانی طلبہ نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بولا تھا—فوٹو: ڈیلی میل

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس بار ایران پر پابندی عائد کرنے سے قبل بھی امریکا کے صدر جمی کارٹر 1979 میں ایرانیوں کے داخلے پرپابندیاں عائد کر چکے ہیں۔

ایران پر یہ پابندیاں اس واقعے کے بعد لگائی گئیں جب اس وقت تہران میں موجود امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول کر 52 سفارت کاروں کو 444 دنوں کے لیے یرغمال بنایا گیا تھا۔

واقعے کے بعد نہ صرف ایرانیوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی بلکہ اس سے سفارتی رابطے بھی منقطع کردیے گئے ۔

ایچ آئی وی مریضوں کے داخلے پر پابندی

ایڈز کے مریضوں پر پابندی براک اوباما نے ختم کی—فوٹو: رائٹرز

امریکی صدر رونالڈ ریگن کے دور حکومت میں محکمہ صحت نے 1987 میں ایڈز اور ہیومن امیونو ڈفیشنی وائرس (ایچ آئی وی) کو خطرناک اور جان لیوا قرار دیتے ہوئے ان امراض میں مبتلا مریضوں کے امریکا داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔

اس پابندی کی آڑ میں افریقہ کے اقلیتی آبادی پر بھی پابندی کا اطلاق رہا۔

یہ پابندی سابق امریکی صدر براک اوباما نے 2009 میں ختم کی، جب کہ اس پابندی کو ختم کرنے کے انتظامات جارج ڈبلیو بش نے مکمل کیے تھے۔