دنیا

امریکا کی میکسیکو دیوار سے قبل بنی طویل دیواریں

دیوار چین، دیوار برلن، رومن دیوار، سندھ کی عظم دیوار اور اسرائیل کی جانب لگائے گئے بیریئرز اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں.

دیوار میکسیکو سے قبل بنی طویل دیواریں


امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی ایسے فیصلے کرنا شروع کر دئیے ہیں، جن کے انہوں نے اپنی مہم کے دوران وعدے کیے تھے، ان ہی وعدوں میں ایک وعدہ امریکا اور اس کے پڑوسی ملک میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کا وعدہ بھی تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اس وعدے کی تکمیل کے لیے سرحد پردیوار بنانے کی منظوری دے دی۔

مگر سوال یہ ہے کہ امریکا میکسکو سے منسلک سرحد پر دیوار کیوں بنانا چاہتا ہے؟

اس کا جواب امریکی عوام، حکام اور خود ڈونلڈ ٹرمپ یہ دیتے ہیں کہ امریکا میں منشیات کے عادی اور جرائم پیشہ افراد میکسیکو سے آتے ہیں۔

میکسیکو میں منشیات فروشی کا کاروبار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، جہاں آئے دن منشیات کا کاروبار کرنے والے گروپوں اور افراد میں تصادم ہوتا رہتا ہے، مگر کیا سرحد پر دیوار کی تعمیر سے منشیات کے عادی اور جرائم پیشہ افراد امریکا میں داخل نہیں ہوں گے؟

دیوار میکسیکو

اس وقت دونوں ملکوں کی سرحد پر سخت سیکیورٹی نافذ ہے—فوٹو: اے پی

امریکا اور میکسیکو کے درمیان یہ دیوار مستقبل میں دنیا پر کیا اثرات چھوڑتی ہے، اس پر بحث کرنا قبل از وقت ہے، مگر ہم اس دیوار سے پہلے دنیا میں موجود دیگر دیواروں کا جائزہ لے کر اس دیوار کے مستقبل کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا اور میکسیکو کی سرحد کے درمیان جس دیوار بنانے کی منظوری دی، وہ دیوار 3 ہزار کلو میٹر طویل ہوگی، جب کہ اس دیوار کی ممکنہ اونچائی 9 سے 16 میٹر ہوگی۔

امریکا اس دیوار کو کنکریٹ سے تعمیر کرے گا، اس وقت دونوں ممالک کی طویل سرحد پر باڑیں لگی ہوئی ہیں، جو بعد میں دیوار میں تبدیل ہو جائیں گی۔

سرحد پر دیوار بنانے کا یہ قدم ایک ایسے ملک کی جانب سے اٹھایا جا رہا ہے جو دنیا کا سب سے مضبوط ملک تصور کیا جاتا ہے، جو پوری دنیا کے خطوں میں کسی نے کسی طرح موجود ہےاور یہ قدم جدید سیاسی تاریخ کا بھی پہلا قدم ہوگا۔

دیوار برلن

تصویر وکی پیڈیا

امریکا کی میکسیکو کی سرحد پر بنائی گئی دیوار سے پہلے دنیا میں بن یا تاحال موجود دیواروں کوتاریخی اور ثقافتی اہمیت حاصل رہی ہے، مگر ان دیواروں میں سب سے زیادہ متنازع اور لوگوں کی بغاوت کا سبب بننے والی دیوار برلن تھی، جسے دنیامیں 27 سال تک رہنے کے بعد بالآخر عوامی طاقت نے گرا دیا تھا۔

فوٹو : رائٹرز

دیوار برلن بھی سیاسی فیصلے کے طور پر1950 سے 1960 کے درمیان جرمنی کے شہر برلن میں بنائی گئی، اس دیوار کے تحت جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا، حالانکہ جرمنی کو جنگ عظیم اول کے بعد ایک سیاسی فیصلے کے تحت سزا دیتے ہوئے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔

جرمنی کا شمالی حصہ روس اور جنوبی حصہ امریکا کو دیا گیا تھا، دونوں حصوں میں الگ الگ ممالک کی مختلف نظریاتی حکومتوں کی وجہ سے پہلے ہی جرمنی تقسیم شدہ تھا، مگر ایک سے دوسرے علاقے میں لوگوں کو جانے سے روکنے کے لیے روس کی جانب سے اپنے زیر اثر علاقے میں 3 میٹر اونچی اور 150 کلو میٹر طویل دیوار بنائی گئی، جس سے لوگوں کا آنا جانا تو بند ہوگیا، لیکن عوام میں نفرت اور بغاوت پیدا ہوگئی۔

عوامی بغاوت کے بعد 1989 میں اس دیوار کو کھولنے کے احکامات دیئے گئے جب کہ 1990 میں باقاعدہ طور پر اسے توڑنا شروع کیا گیا، سیاسی تاریخ میں اس دیوار کو نہایت ہی اہمیت حاصل رہی ہے۔

دیوار چین

تصویر وکی پیڈیا

دنیا کی سب سے بڑی دیوار تو چین میں ہے، جسے دیوار چین کہا جا تا ہے، اس دیوار سے کئی دیو مالائی اور افسانوی کہانیاں وابستہ ہیں، یہ کس مقصد کے لیے کب بنی تھی، اس متعلق حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، لیکن زیادہ تر مؤرخین کا ماننا ہے کہ دیوار عیسوی سن شروع ہونے سے 200 سال قبل بنی تھی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ دیوار جو قلعہ نما ہیں، جنگی حفاظت کے طور پر بادشاہ شن چن ہوانگ نے بنوائی تھی، دیوار چین کی تصدیق شدہ لمبائی یا اونچائی سے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا، مگر کہا جاتا ہے کہ یہ دیوار 15 سے 20 ہزار کلو میٹر طویل ہے اور اس کی اونچائی 25 سے 30 فٹ جب کہ چوڑائی 12 سے 20 فٹ ہے۔

اس دیوار کے ہر ڈھائی سو کلو میٹر پر چیک پوسٹ نما پناہ گاہیں موجود ہیں، یہ دیوار اب تک دنیا کے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے، اسے تاریخی و ثقافتی اہمیت حاصل ہے۔

سندھ کی عظیم دیوار

تصویر وکی پیڈیا

دیوار چین کے بعد دنیا میں منفرد اور تاریخی دیواروں کے زمرے میں ’دیوار رنی کوٹ‘ یا ’رنی کوٹ کا قلعہ‘ آتا ہے، جو کراچی سے 350 کلو میٹر کی مسافت پر ضلع جامشورو اور سن کے صحرا میں واقع ہے۔

اس دیوار یا قلعے کو بھی جنگی مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا، کہا جاتا ہے ’رنی کوٹ‘کا قلعہ تالپور حکمرانوں نے 1812 میں بنوایا جب کہ کچھ محققین کے مطابق یہ قلعہ 836 ہجری میں عرب گورنر عمران بن موسیٰ نے تعمیر کروایا۔

رنی کوٹ کو ’دی گریٹ وال آف سندھ‘ (سندھ کی عظیم دیوار) بھی کہا جاتا ہے، نامور محقق ایم ایچ پنہور اور تاج صحرائی کے مطابق رنی کوٹ کا قلعہ 16 سے 36 کلو میٹر رقبے پھر پھیلا ہوا ہے، اس قلعے کی 2دیواریں ہیں جو7 فٹ چوڑی اور30 فٹ لمبی ہیں، ایک دیوار 7 ہزار 777 اور دوسری 580 کلو میٹر طویل ہے۔

رومن دیوار

تصویر وکی پیڈیا

ایک دیوار انگلینڈ کی ریاست اسکاٹ لینڈ میں بھی موجود ہے جس دیوار ہیڈرائن یا رومن دیوار کہا جاتا ہے، مؤرخین کے مطابق یہ دیوار 122 عیسوی میں تعمیر ہوئی، اس کی اونچائی 15 سے 20 فٹ اورچوڑائی 7 سے 9 فٹ ، جب کہ اس دیوار کی لمبائی صرف 117 کلو میٹر ہے۔

غزہ کی پٹی کا محاصرہ

غزہ پٹی پر اسرائیل و مصر کی سرحد پر کھڑی رکاوٹیں—فوٹو: وکی پیڈیا

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بھی ایک دیوار موجود ہے، جسے دیوار کا نام تو نہیں دیا گیا مگر اسے دیوار جیسی ہی اہمیت ہے، اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر 1994 میں بیریئر رکھے گئے، جو کسی دیوار سے کم نہیں ہیں۔

غزہ پٹی کی سرحد مصر سے بھی ملتی ہے، جس لیے اسرائیل نے مصر کی سرحد کے ساتھ بھی کنکریٹ سے بنے 7 سے 10 فٹ اونچے بیریئرز کی دیوار بنادی ہے ۔ان بیریئرز کی وجہ سے لوگ ایک سے دوسرے علاقے میں نہیں جاسکتے۔

شاہی قلعے کی دیوار کا بیرونی منظر—فوٹو: وکی پیڈیا

ایسی ہی دیواریں اور قلعے افریقہ، ایشیا اور یورپ کے دیگر کئی ممالک میں بھی موجود ہیں، جیسے لاہور کا بادشاہی قلعہ، صوبہ سندھ کے شہروں کوٹ ڈیجی اور عمرکوٹ کے قلعے، یہ بھی دیوار چین کی طرز پر بنائے گئے ہیں، بھارت کی ریاست راجستھان سمیت دیگر ریاستوں اور جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں بھی ایسے قدیم قلعے پائے جاتے ہیں۔