امریکا ماضی میں کیا کیا کرتا رہا؟
امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے 1940 سے 1990 کے درمیان مرتب کی جانے والی خفیہ دستاویزات کو شائع کردیا گیا ہے، جس میں پاکستان کے جوہری صلاحیت کے حامل ہونے جبکہ ضیاء الحق کے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے سمیت دیگر معاملات کی تفصیلات موجود ہیں۔
سی آئی اے کی جانب سے رواں ماہ کے آغاز ایک کروڑ 30 لاکھ صفحات پر مشتمل دستاویزات کی ڈیجیٹل ریلیز (اشاعت) نے عالمی دنیا کی دلچسپی میں اضافہ کیا۔
رپورٹس کے مطابق شائع کی جانے والی ان خفیہ دستاویزات میں یو ایف اوز اور اسٹارگیٹ منصوبوں کا غلبہ ہے، تاہم ہندوستانی میڈیا نے ان خفیہ دستاویزات میں دریافت کیا کہ سی آئی اے کس طرح ایک روحانی پیشوا ساتھیا سائیں بابا کو دنیا میں نئے مذہب کا آغاز سمجھتی تھی۔
مضحکہ خیز طور پر 1971 کے ہندوستان کے حوالے سے دستاویزات میں ایک عنوان شامل کیا گیا، جسے 'نیشنل انٹیلی جنس سروے' کا نام دیا گیا، اس میں ملک کے قومی کرداروں کو ان الفاظ میں پیش کیا گیا کہ 'خوف کو کم کرنے کیلئے جو شاید کم ہوسکتا ہے، تاہم بیشتر بھارتی دفاعی — حساس اور جذباتی — ہیں اور وہ ظاہری طور پر بہت جارحانہ ہیں جو کہ تکبر کی حد تک ہے'۔
سی آئی اے کی رپورٹ کے مذکورہ پیراگراف کے مطابق 'بھارتیوں کے پاس صلاحیت اور آسانی ہے، تاہم ان کے پاس فوری احساس نہیں ہے، یہ نہیں ہے کہ بھارتی رہنما درست کام کرنے کیلئے بے فکر یا تیار نہیں، لیکن ان کی جانب سے ظاہر کیا جانے والا آرام دہ نقطہ نظر غیر بھارتیوں کیلئے بھی اشتعال کا باعث ہے'۔
اگر ان خفیہ دستاویزات میں لفظ 'پاکستان' کو تلاش کیا جائے تو 1233 مقامات پر اس کی نشاندہی ہوتی ہے، جن میں اخبارات کی کلپنگ اور فوج، ٹیلی گرامز اور جغرافیہ پر ملک کے پروفائلز شامل ہیں۔
خفیہ دستاویزات میں پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے ماضی میں ہونے والے تاریخی واقعات کے پس منظر پر سی آئی اے افسران کے انکشافات بھی شامل ہیں: جن میں ہندوستان اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات، پاکستان کے جوہری پروگرام میں پیش رفت، ضیاء الحق کے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے اور دیگر معاملات موجود ہیں۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ بغیر کسی تاریخ کا تعین کیے سی آئی اے انٹیل رپورٹ پاک امریکا تعلقات کو بھارت اور سوویت یونین (موجودہ روس) کے درمیان تعلقات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ 'اقوام متحدہ میں شمالی افریقہ اور کشمیر کے حوالے سے امریکا کے واضح موقف کے باوجود پاکستان میں مغرب نواز افکار جاری رہنے کے امکانات ہیں'۔
مذکورہ دستاویزات میں واضح الفاظ میں لکھی گئی ایک اہم تحریر کے مطابق 'پاکستان کا مغرب نواز ہونا اس کی جانب سے ہندوستان اور روس کے درمیان تعلقات میں اضافے کے خدشے کے پیش نظر ہے نا کہ سرمایہ دارانہ نظام یا مسیحی تہذیب کے ساتھ بنیادی ہمدردی کیلئے، یہ مثبت سے زیادہ منفی ہے'۔
ہاتھ سے لکھی گئی ایک اور تحریر کے مطابق 'پاکستان مغرب کے ساتھ کھلے دل سے اتحاد قائم نہیں کرنا چاہتا، سوائے یہ کہ وہ بدلے میں مناسب فوائد حاصل کرے'۔
اس کے علاوہ دستاویزات میں ایران میں کمیونسٹ کنٹرول پر پاکستان کے ممکنہ رد عمل کے حوالے سے یہ بھی تحریر موجود ہے کہ 'کیا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایران پر کمیونسٹ کے قابض ہوجانے سے پاکستان کیلئے خطرات میں اضافہ ہوجائے گا'۔
اس کے علاوہ دستاویزات میں پاکستان کے حوالے سے شامل انتہائی اہم تفصیلات میں امریکی جاسوس فرانسس گرے پاور کا ذکر بھی موجود ہے جسے پشاور ائیر بیس پر گرفتاری سے قبل یو ٹو طیارے کو اڑان بھرنے کا کہا گیا تھا۔
افشا کی جانے والی خفیہ دستاویزات اس سے قبل صرف میری لینڈ کے کالج پارک کے نیشنل آرکائیو میں عوام الناس کیلئے موجود تھی، جسے وہ کام کے اوقات کار میں 4 کمپیوٹرز دیکھ سکتے تھے۔
ماسکو سے تعلق رکھنے والے سیکیورٹی مشیر نے دستاویزات کے درست ہونے پر سوالات اٹھاتے ہوئے — جن میں سے بیشتر نظر ثانی شدہ ہیں— انھیں جعلی اور غلط معلومات قرار دیا ہے جبکہ سی آئی اے نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
سی آئی اے کے ترجمان نے سی این این کو بتایا کہ 'ان میں سے کوئی بھی بناوٹی نہیں ہے، یہ مکمل کہانی ہے، یہ غلط اور صحیح ہے'۔
امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) نے 'ریڈنگ روم' کے نام سے اپنی ویب سائٹ پر ڈیٹابیس کے لیے خفیہ دستاویزات عام کی ہیں،اس سے پہلے ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات صرف کالج پارک میری لینڈ میں واقع نیشنل آرکائیوز میں دستیاب تھیں، ان ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات میں سے ڈان نے اہم ترین کو ان کے حالات واقعات کے ساتھ شائع کیا ہے۔
سی آئی اے نے 17 جنوری 2017 کو مزید 930,000 خفیہ دستاویزات عام کی ہیں، 1999 سے سی آئی اے تاریخی اور عام دستیاب دستاویزات کو ریکارڈز سرچ ٹول (کریسٹ) میں جاری کرتی رہی ہے۔
1971 میں پاک۔ بھارت صورتحال پر سی آئی اے کی ایک انٹیلی جنس رپورٹ میں ایک نامعلوم امریکی سفیر نے اپنی حکومت کو ایک مراسلے میں سقوط ڈھاکا سے قبل پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات سے آگاہ کیا۔
اس ٹیلی گرام پر 'سیکرٹ' تحریر تھا اور ' ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ ٹیلی گرام' کی مہر لگی تھی، جو اس عہد کے امریکی سفیر کی جانب سے بھارتی ہائی کمشنر جے کے اتل اور پاکستانی صدر یحییٰ خان سے ملاقاتون کے بارے میں دلچسپ معلومات فراہم کرتا ہے۔
ٹیلی گرام میں تحریر تھا ' اس (اتل) نے اپنے مشن کا آغاز عزرس کے ساتھ طویل ملاقات کے ساتھ کیا، یحییٰ کے بارے میں اس نے دریافت کیا کہ وہ بھارتی پریس اور جی او آئی حکام کی جانب سے جس طرح خوفناک عفریت کی طرح کے کردار جیسا پیش کیا جاتا ہے، ویسا نہیں ہے، بلکہ اتل کے مطابق اس نے دریافت کیا کہ وہ فوجی ذہن کی پیچیدگیوں کے شکار، مشوروں کے سامنے سر جھکا دینے والے اور برصغیر میں کشیدگی کم کرنے کی شدید خواہش رکھتے تھے'۔
'اتل کے بیان کے مطابق یحییٰ کی امداد باہمی کی ایک مثال وہ تھی جب بھارتی سفارتکار کی یحییٰ سے ملاقات کا اختتام پاکستانی صدر کے عید کے پیغام پر ہوا، جس کی حتمی اشاعت میں اتل کی ہدایات پر مبنی مخصوص بیانات کو شامل کیا گیا تھا'۔
اسی حوالے سے ایک اور ٹیلیگرام میں امریکی سفیروں نے اتل کی اندرا گاندھی سے ملاقات کے بارے میں تبصرہ کیا ' اتل نے خاص طور پر اس حقیقت پر زور دیا کہ بھارت پاکستان کو توڑنا نہیں چاہتا اور یہ بھی بتایا کہ وہ اس نکتے کو اس دوپہر کو سلطان خان سے ملاقات کے دوران بھی واضح کریں گے'۔
'میں نے اسے بتایا کہ میں اس بات پر حیران ہوں کہ مجیب الرحمٰن کا نام اس پیغام میں شامل نہیں جبکہ اس کی وزیراعظم اور وزیر خارجہ لگاتار شیخ مجیب الرحمٰن کی رہائی کا مطالبہ سیاسی سمجھوتے کے لیے مذاکرات کی شرط کے طور پر کرتے رہے ہیں'۔
اتل نے اس بات کی حالیہ سوچ کی عکاسی کے حوالے سے تردید کرتے ہوئے پراعتماد انداز سے بتایا کہ جہاں تک ان کا خیال ہے وہ مجیب کو ایک احمق سمجھتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی رائے میں مجیب اور بھٹو دونوں موجودہ تباہی کے مرکزی ذمہ دار ہیں۔
سی آئی اے کے حالیہ جاری کردہ خفیہ دستاویزات میں اس عام خیال کی تردید کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971 کی جنگ میں دیگر کے ساتھ سرد جنگ کی سیاسی کشمکش کا عنصر بھی شامل تھا۔
دستاویزات اس کے برعکس حقیقت پیش کرتے ہیں کہ ماسکو ہندوستان کی جانب سے فوجی مداخلت کے "سیاہ اشاروں" پر خوش نہیں تھا۔
ایک بار پھر عام سوچ کے برعکس اندرا گاندھی بھارتی دائیں بازو کی طرف سے اٹھنے والی جنگی مطالبے کے خلاف تھیں اور سوویت یونین نے اندرا گاندھی کو جنگی جنونیوں کے مطالبوں کو رد کرنے پر زور ڈالا تھا۔
یہ خفیہ دستاویزات اوباما انتظامیہ کے آخری دنوں میں جاری ہوئے، جس میں یہ بھی درج ہے کہ جہاں بنگالی اکثریتی مشرقی پاکستان کے بحران کے ایک بڑے حصے کا ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو کو ٹھہرایا جاتا ہے، وہاں دراصل وہ مغربی پاکستانی فوج کا ایک حصہ تھا جس نے جنرل یحیٰ خان کو ڈھاکہ کے معاملے پر تباہ کن طریقے اپنانے پر اکسایا۔
صدر نکسن کو سی آئی اے کی جانب سے روزانہ بریفنگ دی جاتی تھی اسی طرح ایک دن سی آئی اے نے جولائی 1971 میں انہیں بتایا کہ "سوویت ۔ ۔ ۔ (مشرقی پاکستان میں) فوجی مداخلت کے بھارتی سیاہ اشاروں سے کافی پریشان دکھائی دیتی ہے اور 1965 کی طرح ایک بار پھر بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑنے سے روکنے کی خاطر ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔"
صدر کو دیے گئے بریفنگ نوٹ میں درج ہے کہ"9 جولائی (1971) پر روسی اخبار (ازویستیا) میں اعلٰی حکام کے تبصرے کے ذریعے بھارت اور پاکستان کو سختی کے ساتھ ماسکو نے اپنی خواہش کی یاد دہانی کر وائی ہے کہ برصغیر میں جنگ سے اجتناب ہونا چاہیے۔"
"اخبار کے مضمون میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ ماضی میں مقامی تنازع جلد ہی فوجی تنازع کا روپ لے لیتے ہیں اور زور دیا گیا کہ بھارت اور پاکستان کو مشرقی پاکستان پر اپنے مسائل کا کوئی پرامن حل ڈھونڈنا ہوگا۔ مضمون میں اندرا گاندھی کی جانب سے پاکستان سے جنگ کا مطالبہ کرنے والوں کو رد کرنے کے عمل کی خصوصی طور پر تائید کی گئی ہے۔"
کونسل جنرل نے بحران سے نمٹنے کے دیگر طریقے بھی پیش کیے۔ "انہوں نے پناہ گزین مسئلے پر ماسکو کی مدد کا حوالہ دیا اور پاکستانیوں سے اپنی مخالفت کے دلائل پیش کیے، مگر انہوں نے اس بات پر شدید زور دیا کہ اگر بھارت جنگ چھیڑ دیتا ہے تو یہ انتہائی برا عمل ثابت ہوگا اور اس بات پر بھی زور دیا کہ اس جنگ کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔"
سی آئی اے نے صدر نکسن کو یہ بھی بتایا کہ پناہ گزینوں کا خیال رکھنے کے لیے بھارت کو مطلوبہ فنڈ سے کہیں زیادہ کم بیرونی امداد مختص کی گئی ہے۔ صرف 6 ماہ کے لیے 65 لاکھ مہاجرین کا خیال رکھنے کے لیے مطلوبہ رقم 40 کروڑ ڈالر ہے جبکہ مختص کردہ رقم 12 کروڑ ڈالر ہے۔
"مغربی بنگال میں 50 لاکھ مہاجرین کی موجودگی سے اشیاء خورد و نوش میں شدید اضافہ پیدا ہوا ہے اور مزدوری میں خاصی بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔"
22 مارچ 1971 کو سی آئی اے نے صدر نکسن کو بتایا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی منسوخی سے ہو سکتا ہے کہ مشرقی پاکستانی شدید رد عمل پیش کریں، جو صدر یحیٰ خان کے لیے مسائل میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
یحیٰ خان نے سیاسی جماعتوں کو ایک مقام پر اکٹھا ہونے کی پرزور کوشش کی مگر وہ کسی بھی "ایک بڑی مغربی پاکستانی جماعت" کو اس اجلاس میں لانے میں ناکام رہے۔
سی آئی اے نے نشاندہی کی کہ،"یحیٰ شدید مشرقی پاکستانی رد عمل کے رسک سے آگاہ ہیں، مگر قیاساً انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کا متبادل — مغربی پاکستان میں بدنظمی اور مغربی پاکستانی فوج کے اندر بے چینی — انتہائی بدتر ہوگا۔
مشرقی پاکستان کی آزادی کے ممکنہ طور پر اعلان کے بعد بھی مجیب نے اگر سخت گیر مؤقف رکھا —یحیٰ کو ایک دوسری مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے: آیا مشرقی پاکستان کو الگ ہونے دیا جائے یا پھر طاقت سے ملک کو جوڑ کر رکھنے کی کوشش کی جائے۔"
اس میں مزید درج ہے کہ، "7 کروڑ مشرقی پاکستانیوں کے درمیان شدید علحدگی پسند جذبات، اور اس صوبے میں دستیاب فوج اور پولیس اہلکاروں کو مد نظر رکھیں تو دوسرا راستہ انتہائی مشکل ہوگا۔"
19 فروری 1972 کو آفس آف کرنٹ انٹیلیجنس کی مرتب کردہ ہفتہ وار سمری میں اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کا، اور ان کو فوج سے لاحق خطرے کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
امریکی حکام کی جانب سے تیار کی گئی اس دستاویز کے مصنف صفحہ نمبر 12 پر کہتے ہیں کہ بھٹو نے عہدہ سنبھالنے کے ابتدائی ہفتوں کے دوران ہی 'مہارت سے' عوامی حمایت حاصل کی ہے، مگر اب ان پر عوام میں پھیلی اقتصادی عدم اطمینانی اور سماجی تحریکوں کا بوجھ بڑھنے لگا ہے۔
"عوامی مطالبوں کے ساتھ ساتھ فوج بھی اقتصادی وسائل میں زیادہ سے زیادہ سے حصے کے مطالبے کرنے لگی ہے۔ فوج جو کہ پاکستان میں سب سے زیادہ منظم ادارہ ہے، بھٹو کے فیصلوں کا عرق ریزی سے جائزہ لے گی، اور اگر بھٹو اس کی توقعات پر پورا نہ اترے تو وہ دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے سے نہیں ہچکچائے گی۔"
رپورٹ میں بھٹو کی جانب سے مارشل لاء جاری رکھنے کے فیصلے کو بھی ان کی حکومت کے لیے "سب سے زیادہ متنازع مسائل میں سے ایک ہے۔"
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، "ان (بھٹو) کی جانب سے حتمی تاریخ کا اعلان نہ کرنے سے ان کے سیاسی مخالفین ناراض ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ اس سے بھٹو کو اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے وقت مل رہا ہے۔ اس کے علاوہ غیر معمولی اختیارات باقی رکھنے کی وجہ سے بھٹو کئی متنازع معاملات پر ایسے مطلق العنان فیصلے کر سکتے ہیں جو اسمبلی کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوں گے، بھلے ہی ان کی پاکستان پیپلز پارٹی اکثریت میں ہے۔"
"نتیجتاً بکھرے ہوئے سیاسی اپوزیشن گروپس ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کے گرد اکٹھے ہو رہے ہیں۔ وہ کچھ دیر کے لیے ہی سہی، مگر بھٹو کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے، اور نئے آئین کی تیاری کے لیے زور ڈالنے کے لیے متحد ہیں۔"
سیاسی پیچیدگیوں کے علاوہ انٹیلیجنس رپورٹ میں "ہچکولے کھاتی معیشت" کا بھی ذکر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشرقی پاکستانی کی منڈیوں کو کھو دینے اور غیر ملکی امداد کے رکنے کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے، پیداوار میں کمی ہوئی ہے، مزدوروں میں بے چینی پھیل رہی ہے، اور معیشت کو زک پہنچانے والی ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔"
"خصوصاً پاکستان کی کاروباری برادری مزدور تحریکوں سے ںاخوش ہے، جبکہ مزدور، جو بھٹو کے صنعتکار مخالف نعروں پر پرجوش انداز میں یقین کر بیٹھے تھے، حکومت کے اعلان کردہ محدود مزدور اصلاحات سے ناخوش ہیں۔"
اکتوبر 1978 میں ’نیشنل انٹیلی جنس ڈیلی کیبل‘ کے نام سے جاری سی آئی اے کی ایک کیبل اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ سے متعلق مواد پر مشتمل ہے۔
کیبل کے مواد سے پتہ چلتا ہے کہ کیبل بظاہرامریکی حکومتی عہدیداروں تک معلومات پہنچانے کے حوالے سے لکھی گئی، جس میں پاکستان، شام، عراق، لبنان اور برازیل کے ممالک کے حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
دستاویز کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء کو بنیادی طور پر آفیس میں عرصے تک رہنے کے لیے مسلسل ملٹری کی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ ان کے پاس پاکستان کے سیاسی و معاشی مسائل حل کرنے کی قابلیت نہیں ہوتی۔
کیبل سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل ضیاءکی جانب سے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد وہ فوج میں اپنے حریفوں کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں،انہیں یقین ہوتا ہے کہ مارشل لا سے فوج کا تشخص اور وقار کم ہوا ہے، جس وجہ سے ان کے اور فوج کے اعلیٰ افسران کے درمیان دوریاں بڑھی ہیں۔
تاہم فوجی افسران نے ان کے خلاف دفتر میں اس وقت تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا جب تک ذوالفقار علی بھٹو کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا گیا تھا۔
امریکی عہدیداروں کی جانب سے فروری 1979 میں مرتب کی گئی ایک اور رپورٹ میں جنرل ضیاء کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کے ٹرائل پر روشنی ڈالنے کے حوالے سے تجزیہ کیا گیا ہے۔
دستاویزات کہتے ہیں کہ ’اگر بھٹو بچ گیا تو فوجی قیادت جنرل ضیاء کے خلاف متحد ہوجائے گی اور ان کے خلاف مزید اقدامات اٹھائے جائیں گے‘۔
مندرجہ بالا دستاویز ان 930,000 خفیہ دستاویزات میں سے ایک ہے جنہیں سی آئی اے نے 17 جنوری 2017 کو عام کیا ہے۔ 1999 سے سی آئی اے تاریخی اور عام دستیاب دستاویزات کو سی آئی اے ریکارڈز سرچ ٹول (کریسٹ) میں جاری کرتی رہی ہے۔
1980 کے اوائل کی ایک ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات میں سی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر امریکی حکومت کو پاکستان کی جانب سے پلوٹونیم کشید کرنے والے ری پراسیسنگ پلانٹ کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔
یہ باتیں بین الاقوامی انٹیلیجنس پر امریکی صدر کو مشاورت فراہم کرنے والے سی آئی اے کے شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے نومبر 1982 میں 'امریکا پر اثر انداز ہونے والے عالمی واقعات' نامی رپورٹ میں کیں۔
"پاکستان کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری" کے ذیلی عنوان میں یہ دستاویز اس وقت پاکستان کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے بارے میں امریکی حکام کی معلومات کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
"پاکستانی نیوکلیئر بم کی تیاری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ وہ ایک ایٹمی ہتھیار کی تیاری کے لیے آلات اور پرزہ جات خرید رہے ہیں، اور اطلاعات ہیں کہ اگلے دو ماہ میں وہ پلوٹونیم کشید کرنے کے لیے ری پراسیسنگ پلانٹ بھی شروع کر دیں گے۔ صدر ضیاء جانتے ہیں کہ ری پراسیسنگ کا کوئی بھی عمل — یہاں تک کہ وہ بھی جنہیں پاکستانی "قانونی" سمجھتے ہیں — امریکا اور پاکستان کے سیکیورٹی تعلقات میں دراڑ ڈال سکتا ہے۔
ان افسر کا مزید کہنا ہے کہ اس دوران پاکستان کی ایٹمی سرگرمیوں میں چین کے شامل ہونے، یا ہندوستانی ردِعمل کے حوالے سے مزید کوئی معلومات نہیں آئی ہیں۔
"ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاؤ" سے متعلق عوام میں جاری کی گئی ایک اور دستاویز 'ورلڈوائڈ رپورٹ' میں جولائی 1981 کی ایک جرمن اخباری خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کس طرح جرمن سائنسدانوں، اور اس وقت کے لیبیا کے حکمران قذافی نے 'خفیہ طور پر' پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے میں مدد دی۔
مضمون کی شروعات میں ہی کہا گیا ہے کہ "صرف چند دن قبل پاکستانی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے ملک کا ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، مگر خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے کے لیے کام تیزی سے جاری ہے۔ پاکستان کے مددگار فیڈرل ری پبلک آف جرمنی کے سائنسدان اور لیبیا کے حکمران قذافی ہیں، جو تیل سے کمائی گئی دولت پاکستان کو اس کام کے لیے فراہم کر رہے ہیں۔"
مضمون میں تین جرمن اور چار پاکستانیوں، 'بشمول ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار' کی ملاقات کا بھی ذکر ہے۔