پاکستان

فوجی عدالتوں میں توسیع پر حکومت اور اپوزیشن میں تعطل برقرار

فوجی عدالتوں کی مدت میں اضافے پراتفاق پیداکرنے کے لیے پارلیامانی پارٹیوں کے رہنماؤں کااجلاس کسی فیصلے کے بغیر ختم ہوگیا

اسلام آباد: وفاقی حکومت فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے اپوزیشن کو راضی کرنے میں ناکام ہوگئی، منگل 17 جنوری کو ہونے والا وفاقی پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں کا اجلاس بغیر نتیجے کے ختم ہوگیا۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والا ان کیمرا اجلاس فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے اتفاق پیدا کرنے پر ہونے والا دوسرا اجلاس تھا، جو کسی بھی فیصلے کے بغیر ختم ہوگیا۔

اس سے پہلے اس موضوع پر ہونے والا اجلاس بھی بغیر نتیجے کے ختم ہوگیا تھا۔

وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے اجلاس میں فوجی عدالتوں کی اب تک کارکردگی پر بریفنگ دی۔

اجلاس کے بعد پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)رہنما شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ کا ان کیمرا اجلاس بلایا جائے، جس میں عسکری قیادت ارکان کو بریفنگ دے۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتیں صرف نواز دور میں کیوں؟

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اجلاس میں دی گئی بریفنگ نے مزید سوالات کو جنم دیا، اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس معاملے پر حکومت سے جواب طلب کیا۔

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر اور پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی)کے رہنما سید خورشید شاہ نے اجلاس کے بعد کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سے فوجی عدالتوں سے متعلق وضاحت طلب کی۔

خورشید شاہ کے مطابق فوجی عدالتوں کا مسئلہ حکومت یا اپوزیشن کا نہیں بلکہ ریاست کا معاملہ ہے۔

اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ حکومت نے حزب اختلاف کو یقین دہانی کرائی کہ فوجی عدالتوں سے متعلق 31 جنوری کو ہونے والی میٹنگ میں مزید تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔

اجلاس کے بعد اسپیکر ایاز صادق کا اپنی گفتگو میں کہنا تھا کہ اجلاس میں تمام فریقین کھلے ذہن سے شریک ہوئے، حکومت آئندہ اجلاس میں اس معاملے پر مزید تفصیلات فراہم کرے گی۔

ایاز صادق نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کو اچھے طریقے سے حل کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتیں: حکومت کا بنیادی آئین میں تبدیلی پرغور

ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ اجلاس میں اپوزیشن نے حکومت سے کالعدم تنظیموں سے متعلق پالیسی پر وضاحت طلب کی، جب کہ اپوزیشن نے مدارس سے متعلق اصلاحات پر بھی سوالات اٹھانے سمیت نیشنل ایکشن پلان(نیپ)پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا۔

خیال رہے کہ اجلاسں میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار غیر موجود رہے۔

وفاقی وزیر داخلہ کی غیرموجودگی پر قومی عوامی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد شیرپاؤ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس کے بعد کہا کہ چوہدری نثار کو اجلاس میں شرکت کرنی چاہئیے تھی۔

واضح رہے کہ 3 سال پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد قائم کی گئیں خصوصی فوجی عدالتوں کی مدت رواں ماہ 2 جنوری کو ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن میں عدالتوں کی مدت میں اضافے سے متلعق مذاکرات جاری ہیں۔

رواں ماہ 9 جنوری کو وزیر اعظم اعظم نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے سیاسی و عسکری قیادت کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر اتفاق کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں نے ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا، جبکہ ان سے آپریشن ’ضرب عضب‘ کے تحت کارروائیوں کو معنی خیز بنانے میں بھی مدد ملی۔

وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس کے ایک دن بعد حزب اختلاف کی جماعتوں کا مشاورتی اجلاس ہوا تھا، جس میں اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی مخالفت کرے گی، جب کہ جماعت اسلامی نے بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی حمایت کرنے سے انکار کیا۔

خیال رہے کہ 3 جنوری 2015 کو پارلیمنٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے کر فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں توسیع کرتے ہوئے دہشت گردوں کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی منظوری دی تھی۔

اس سے پہلے فوجی عدالتوں کو صرف فوجی اہلکاروں کے جرائم کی پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 کے تحت سماعت کا اختیار تھا۔