پاکستان

خیبرپختونخوا: 'صرف ایک فیصد سنگین جرائم میں افغان مہاجرین ملوث'

10549 جرائم میں سے صرف 134 میں افغان مہاجرین کو ملوث قرار دیا گیا، صوبائی حکام جھوٹے اعداد وشمار پیش کرتے رہے، رپورٹ

پشاور: پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں خطرناک جرائم میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کے ملوث ہونے کے وسیع تصور کے برعکس ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ صوبے میں صرف ایک فیصد ایسے مقدمات کا اندراج ہوا ہے جس میں افغان مہاجرین کو ملوث قرار دیا گیا۔

خیبرپختونخوا کے معلومات تک رسائی کے حق کے ایکٹ 2013 کے ذریعے حاصل کی جانے والی دستاویزات نے افغان مہاجرین کے جرائم میں ملوث ہونے کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں جو سول قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فراہم کردہ تفصیلات کے بلکل برعکس ہیں۔

یہ دستاویزات خیبرپختونخوا حکومت کے ڈائریکٹریٹ آف پروسیکیوشن اور محکمہ پولیس سے حاصل کی گئی ہیں ان دونوں اداروں سے دستاویزات حاصل کرنے کا مقصد صوبائی حکام کے دعوؤں کی توثیق اور تصدیق کرنا تھا۔

دستاویزات میں 2014 سے 30 ستمبر 2016 تک کے اعداد وشمار موجود ہیں جن میں اغوا برائے تاوان، اغوا، قتل، ڈکیتی، بھتہ اور بم دھماکوں جیسے سنگین جرائم کے اعداد وشمار شامل ہیں۔

ڈائریکٹریٹ آف پروسیکیوشن کے مطابق اس عرصے میں 11685 مقدمات درج ہوئے جن میں سے 10549 کا چالان عدالت میں پیش کیا گیا، ان میں سے 134 میں افغان مہاجرین ملوث ہیں، جو عدالت میں زیر سماعت مقدمات کا 1.27 فیصد ہے۔

ان مقدمات میں 23007 افراد کو ملزم قرار دیا گیا، جن میں صرف 300 افغان مہاجرین ہیں، اس کے تحت جرائم میں افغان مہاجرین کے ملوث ہونے کی شرح 1.3 فیصد ہے۔

مذکورہ اعداد وشمار قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کی جانب سے ان دعوؤں کی تردید کرتے ہیں جن میں کہا جاتا رہا ہے کہ صوبے میں ہونے والے بیشتر جرائم میں افغان مہاجرین ملوث ہیں۔

یاد رہے کہ خطے میں عسکریت پسندی میں اضافے سے قبل اور اس کے بعد پولیس متعدد مرتبہ افغان مہاجرین پر کچھ خطرناک جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی رہی ہے جن میں اغوا برائے تاوان، بھتہ اور بم دھماکے شامل ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ افغان مہاجرین کے حوالے سے بیان کیے جانے والے جرائم کے اعدادو شمار صوبے میں ہونے والے جرائم کا 15 سے 30 فیصد بنتے ہیں، اور اس حوالے سے نہ ہی پولیس اور نہ ہی دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ان دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کیلئے ٹھوس ثبوت ہی پیش کیے ہیں۔

ادھر محکمہ پولیس کی جانب سے فراہم کردہ اعداد وشمار ڈائریکٹریٹ آف پروسیکیوشن کے اعدادوشمار سے معمولی سے بڑھے ہوئے ہیں جن کے پاس عدالت میں مقدمات کی پیروی کا مینڈیٹ موجود ہے۔

محکمہ پولیس کے مطابق سال 2014 میں افغان مہاجرین کے خلاف 146 مقدمات درج ہوئے جبکہ ڈائریکٹریٹ کے مطابق ان مقدمات کی تعداد صرف 56 تھی۔

اسی طرح محکمہ پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق 2015 میں افغان مہاجرین کے خلاف 96 مقدمات درج ہوئے جبکہ ڈائریکٹریٹ کے مطابق یہ تعداد 49 تھی۔

محکمہ پولیس کی حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق یکم جنوری سے 30 ستمبر 2016 تک افغان مہاجرین کے خلاف 100 مقدمات درج کیے گئے تھے تاہم ڈائریکٹریٹ مطابق اس عرصے میں افغان مہاجرین کے خلاف قائم 29 مقدمات کو عدالت میں سماعت کیلئے پیش کیا گیا۔

دونوں محکموں کے اعدادوشمار میں اختلاف کے حوالے سے اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ محکمہ پولیس نے ان تمام مقدمات کا ریکارڈ جمع کیا ہے جن کو تھانے میں درج کیا گیا تھا تاہم ڈائریکٹریٹ کے پاس وہ ریکارڈ موجود ہے جن مقدمات کے چالان عدالت میں پیش کیے گئے تھے۔

واضح رہے کہ ڈائریکٹریٹ کی جانب سے فراہم کیے جانے والے اعدادوشمار مستند تصور کیے جائیں گے۔

ڈائریکٹریٹ آف پروسیکیوشن کے مطابق 2014 میں مجموعی طور پر اغوا برائے تاوان کے 87 مقدمات ریکارڈ ہوئے جن میں سے صرف 9 مقدمات میں افغان مہاجرین ملوث تھے، قتل کے 3386 مجموعی مقدمات میں سے 32 میں افغان مہاجرین ملوث تھے، بم دھماکے کے مجموعی 133 مقدمات میں صرف ایک کیس میں افغان مہاجر کے ملوث ہونے کا الزام ہے۔

ان دستاویزات کے مطابق 2015 میں اغوا برائے تاوان کے درج ہونے والے 70 مقدمات میں سے 3 میں افغان مہاجرین ملوث تھے، قتل کے 2519 مقدمات میں 28 افغان مہاجرین جبکہ بم دھماکے کے 57 درج مقدمات میں سے ایک کا الزام بھی کسی افغان مہاجر پر نہیں ہے۔

اسی طرح گذشتہ سال جنوری سے ستمبر کے دوران اغوا برائے تاوان کے 33 مقدمات میں سے صرف ایک میں افغان مہاجر کے ملوث ہونے کا الزام ہے، قتل کے 2033 مقدمات میں سے 14 کا الزام افغان مہاجرین پر عائد کیا گیا جبکہ اس عرصے میں ہونے والے 61 بم دھماکوں میں سے 4 کا الزام افغان مہاجرین پر لگایا گیا۔

دوسری جانب 2014 سے 30 ستمبر 2016 تک کے عرصے میں پولیس نے 348 بھتہ وصولی کے مقدمات کا اندراج کیا اور ڈائریکٹریٹ کے مطابق عدالت میں جن مقدمات کا چالان پیش کیا گیا ان میں سے 9 میں افغان مہاجرین ملوث تھے۔

سابق بیوروکریٹ اور ریجنل انسٹیٹیوٹ آف پالیسی ریسرچ اینڈ ٹریننگ کے سربراہ خالد عزیز کا کہنا تھا کہ 'سچ کو ایک مخصوص کارروائی کیلئے پیش کیا گیا، کسی نے نہیں پوچھا یہ صحیح ہے یا غلط'۔

افغان مہاجرین کی جرائم میں ملوث ہونے کے حوالے سے حکام کے دعوؤں اور سرکاری اداروں کی رپورٹ پر ان کا کہنا تھا کہ 'اس میں کوئی ربط اور تعلق موجود نہیں'۔

یہ رپورٹ 15 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی