پاکستان

پاناما کیس: نواز شریف کے حکومتی عہدوں کی تفصیلات پیش

سپریم کورٹ نےوزیراعظم کے سرکاری عہدوں پر رہنے کی تفصیلات طلب کی تھیں،تحریک انصاف کے وکیل کے قطری شہزادے کے خط پر دلائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے نئے لارجر بینچ نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پاناما لیکس کے معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت دوسرے روز بھی جاری رکھی جبکہ وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے بینچ کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات جمع کروا دیئے۔

سپریم کورٹ میں نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے جمع کروائے گئے، جواب میں وزیراعظم کی اب تک کی سیاسی تعیناتیوں سے متعلق تفصیلات پیش کی گئی۔

عدالت میں جمع کرائے گئے جواب کے مطابق 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف کی جانب سے مارشل لاء لگائے جانے کے بعد وزیراعظم کو 10 دسمبر 1999 کو جلاوطن کردیا گیا۔

جس کے بعد نواز شریف 26 نومبر 2007 کو وطن واپس لوٹے اور 5 اپریل 2013 سے وہ وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہیں۔

نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے جمع کرائے جانے والے اس جواب کی کاپیاں درخواست گزاروں کے وکلاء کو بھی فراہم کی گئیں۔

سماعت کے دوران عمران کان کے وکیل نعیم بخاری نے اجازت مانگی کہ وہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے انٹریوز کا حوالہ بھی دینا چاہتے ہیں جن میں لندن میں جائیداد کی ملکیت کے حوالے سے ان سب کے موقف میں تضاد ہے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے نعیم بخاری کو دو بار متنبہ کیا کہ وہ خطرناک حدود میں داخل ہورہے ہیں اور ریمارکس دیے کہ 'اگر ہم ٹی وی انٹرویوز اور نیوز پیپر کی خبروں کی بنیاد پر لوگوں کو لٹکانے شروع کردیں تو پھر آپ کے موکل بھی نہیں بچ پائیں گے'۔

'کیس 10 دن میں ختم ہونے والا ہے'

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ عمران خان اب کوئی نیا کام ڈھونڈ لیں، یہ کیس 10 دن میں ختم ہونے والا ہے۔

طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ جھوٹ کی بنیاد پر بنے کیسز زیادہ دیر نہیں چلتے، عمران خان مریم نواز سے اس لیے خوف زدہ ہیں کیونکہ وہ سیاسی طور پر عمران خان پر حاوی ہیں۔

نواز لیگ رہنما کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے تین سال الزامات لگانے اور احتجاج کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا، عمران خان کبھی مریم نواز کو کیپٹن صفدر کے زیرکفالت قرار دیتے ہیں جبکہ کبھی نواز شریف کی زیر کفالت ہونے کا بتاتے ہیں۔

اس موقع پر وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن کا کہنا تھا کہ عمران خان کہتے ہیں ان کا کام صرف الزام لگانا ہے اور اس بات کو تسلیم کرنے میں انہیں شرمندگی بھی نہیں ہوتی۔

انوشہ رحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ عدالت بھی کہہ چکی ہے کہ پی ٹی آئی کا مؤقف ہر وقت بدلتا رہتا ہے، عمران خان کے پاس کوئی کیس نہیں صرف الزامات کا پلندہ ہے۔

یاد رہے گذشتہ روز سماعت کا آغاز کرتے ہوئے جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیس کو کسی صورت التواء کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا اور سماعت روزانہ ساڑھے 9 سے 1 بجے تک کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ

نئے لارجر بینچ کی جانب سے درخواستوں پر سماعت کے پہلے روز جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہوگا نواز شریف نے عوامی عہدے کا غلط استعمال تو نہیں کیا، ساتھ ہی عدالت نے وزیراعظم نواز شریف کے نئے وکیل مخدوم علی خان کو ہدایات دیں تھیں کہ وہ عدالت کے سامنے وزیراعظم کے سرکاری عہدوں کی مکمل تفصیلات واضح کریں۔

عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا تھا کہ عدالت کو ان تمام تفصیلات سے آگاہ کیا جائے کہ نواز شریف 2 بار وزیراعظم کب منتخب ہوئے، انہیں ملک بدر کب کیا گیا، پنجاب کے وزیراعلیٰ کب بنے اور پنجاب کے وزیر خزانہ کب رہے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے طویل دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ شریف خاندان کے لندن فلیٹس کے معاملے پر قطری شہزادے کے خط کو نظرانداز کردیا جاتا ہے تو سارا کیس واضح ہوجائے گا۔

عدالت نے نعیم بخاری کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ثابت کریں آف شور کمپنیاں 2006 سے پہلے ہی وزیراعظم کے بچوں کی ملکیت میں تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما گیٹ کیس: شریف خاندان کے وکلاء پھر تبدیل

ساتھ ہی عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کو پارک لین فلیٹس کی خریداری کے لیے استعمال ہونے والے ذرائع کی معلومات اور منی ٹریل واضح کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جبکہ نئے چیف جسٹس 5 رکنی لارجر بینچ کا حصہ نہیں۔

لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔