اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر میں کام کرنے والی کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لے لیا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر معاملے کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ نوٹس میڈیا پر نشر ہونے والی رپورٹس پر لیا گیا جن میں کم سن ملازمہ پر ہونے والے مبینہ ’جسمانی تشدد‘ کو دیکھا جاسکتا تھا مگر بعد ازاں بچی کے والدین نے معاملے پر راضی نامہ کرکے اسے رفع دفع کردیا تھا۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز (3جنوری) کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کے گھر میں مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔
عدالت میں پیشی کے موقع پر بچی کے والد کا کہنا تھا کہ انہیں عدالت کی جانب سے ملزم جج اور ان کی اہلیہ کو ضمانت دینے پر کوئی 'اعتراض' نہیں۔
10 سالہ بچی کے والد کی جانب سے بیان حلفی میں تحریر کیا گیا تھا کہ 'انھوں نے کسی دباؤ کے بغیر راضی نامہ کرلیا ہے اور وہ مقدمہ میں نامزد جج کو فی سبیل اللہ معاف کرتے ہیں، عدالت جج یا ان کی اہلیہ کو بری کرے یا ضمانت دے انھیں کوئی اعتراض نہیں'۔
بچی کے والد نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انھوں نے اپنے طور پر معاملے کی چھان بین کی ہے اور انھیں پتہ چلا ہے کہ یہ کیس جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔
اس کے بعد اسلام آباد کی مقامی عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف محمود خان نے بچی پر تشدد کرنے والے حاضر سروس جج کی اہلیہ ملزمہ ماہین ظفر کی عبوری درخواست ضمانت 30 ہزار روپے کے مچلکے کے عوض منظور کرتے ہوئے علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دے دیا تھا۔