پاکستان

چکن گونیا کا پھیلاؤ، حکومت سستی کا شکار

اس بیماری کو دوسرے کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی،مریض خود بخود 5 سے 6 دنوں میں صحت یاب ہوجاتا ہے، ماہرین طب

کراچی کے علاقے ملیر میں بخار کی وبا پھیلنے کے باوجود صوبائی حکومت حفاظتی انتظامات میں سستی کا مظاہرہ کررہی ہے، سعود آباد میں موجود صوبائی حکومت کے بڑے ہسپتال میں ادویات کی قلت اور مناسب علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے پسماندہ علاقے کے مریضوں میں مشکلات کا اضافہ ہوا۔

وبا پھیلنے کے بعد ہسپتالوں کی حالت جاننے کے لیے ڈان کی جانب سے علاقے کا دورہ کیا گیا۔

ایک ماہ سے روزانہ سیکڑوں مریض تیز بخار اور جوڑوں کے درد کی شکایات کے ساتھ مختلف ہسپتالوں میں آئے، اس کے باوجود محکمہ صحت سندھ نے بیماری کی تصدیق نہیں کی، جبکہ کچھ ڈاکٹرز کو یقین ہے کہ علاقے میں پھیلنے والی وبا’چکن گونیا‘ہے۔

سعود آباد میں 200 بستروں پر مشتمل بھبھانی ہسپتال کے تمام شعبے مریضوں سے بھرے ہوئے تھے، جن کو تیز بخار، جوڑوں کے درد اور اس جیسی دوسری بیماریوں کی شکایات تھیں، جبکہ اکثر مریض پہلے بخار سے صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ اس مرض کا شکار ہوئے.

علاج کے لیے ہسپتال آنے والے مریضوں میں زیادہ تر یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد شامل تھے، جو مفت ادویات دستیاب نہ ہونے کے باعث ہسپتال کے باہر موجود نجی میڈیکل اسٹورز سے دوائیاں خرید رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں پراسرار بیماری کا حملہ

ڈاکٹر سے معائنہ کروانے کے لیے اپنی باری کی منتظر عمررسیدہ خاتون زینت نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اگر سرکاری ہسپتال سے بھی مفت ادویات نہ مل سکیں تو غریب مریضوں کا یہاں آنے کا کیا فائدہ؟

زینت بے بتایا کہ ان جیسے لوگ نجی ہسپتالوں سے علاج کروانے کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے، جب ان کے پاس دن میں تین وقت کھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو وہ 500 روپے کے کیپسول کیسے خرید سکتے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر پہلے سبزی فروخت کرتے تھے مگر کچھ ماہ قبل وہ آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوگئے جس کے بعد اب وہ کچھ نہیں کرتے، ان کا شوہر بھی اس بیماری سے متاثر ہے مگر وہ انہیں یہاں نہیں لاسکی کیوں کہ ان کے پاس اپنے اور اس کے علاج کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

زینت کے قریب ہی کھڑے شاہ میر اپنے علاج کے لیے یومیہ اپنی کمائی کے 750 روپے خرچ کرتے ہیں، وہ ڈاکٹرز کی ہدایات پر علاج کے لیے ہسپتال آتے ہیں، شاہ میر کے مطابق انہیں گزشتہ 2 روز سے سخت بخار اور جوڑوں کے نچلے حصے میں درد ہے، جس وجہ سے وہ کھڑے نہیں ہوسکتے، انہوں نے صحت کی خرابی کے باعث روزی کمانے پر تشویش ظاہر کی۔

ہسپتال میں ایسے مریض بھی موجود تھے جن کا پورا خاندان بیمار تھا ، ایسے مریضوں میں یاسمین بھی شامل ہیں، جنہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان کے 7 افراد گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اس خطرناک بیماری کا شکار ہیں، ان کے خاندان کے تمام افراد بخار سے صحت یاب ہوچکے ہیں مگر تاحال وہ جوڑوں کے سخت درد میں مبتلا ہیں جس وجہ سے اپنے روز مرہ کے کام کرنے سے قاصر ہیں۔

مریضوں سے بات چیت سے ظاہر ہوا کہ ان کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے انتظامیہ علاج کی سہولیات فراہم نہیں کر سکی،ڈاکٹروں کی غیر موجودگی کی وجہ سے مریض پریشان ہیں کہ وہ ہفتوں تک ادویات کھانے کے باوجود مکمل صحت یاب کیوں نہیں ہو رہے۔

ایک اور مریض کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹرز کی ہدایات پر ایک ماہ سے زائد عرصے سے ادویات استعمال کر رہے ہیں مگر تاحال ان کے جوڑوں میں درد رہتا ہے، جس وجہ سے اپنے روزہ مرہ کے کام سرانجام دینے سے قاصر ہیں، انہوں نے خٰیال ظاہر کیا کہ ادویات غیر معیاری ہیں۔

ہسپتال کے 20 ڈاکٹرز سمیت 80 کے قریب ملازمین بھی اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں، ان میں سے ایک گائنا کولوجسٹ ڈاکٹر فرحت پیرزادہ بھی ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ ماہ بیمار ہوئیں اور انہیں بخار سے جان چھڑانے میں 5 دن لگے ، انہیں تاحال جوڑوں کا درد ہے،انہیں احساس ہے کہ مریضوں کے ساتھ کیا ہورہا ہوگا، وہ یومیہ او پی ڈی میں آنے والے 60 سے زائد مریضوں میں سے 25 مریضوں کا چیک اپ کرتی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ مریضوں کو صرف بخار اور جوڑوں کے درد کے خاتمے کی ادویات دی جارہی تھیں، جب کہ انہیں وائرل بخار کی کوئی بھی دوائی نہیں دی جارہی تھی، ان کا خیال ہے کہ مریضوں کو جوڑوں کے درد کا مستقل علاج کرانا چاہئیے۔

ڈاکٹرز کے مطابق ہسپتال میں آنے والے تمام مریض قریبی علاقوں سے آ رہے ہیں، ملیر میں موجود ایک ہی ہسپتال کے ذریعے وائرل بخار پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔

ملیر کے علاقے کالا بورڈ میں عطیہ جنرل ہسپتال کے ڈاکٹر امتیاز حسین کے مطابق رواں ماہ کے آغاز سےخطرناک حد تک ان کے پاس بخار اور جوڑوں کے درد کی شکایات والے مریض آئے، انہوں نے اپنے 30 سال کیریئر میں اتنے بڑے پیمانے پر ایسی بیماری پھیلتے ہوئے نہیں دیکھی۔

مزید پڑھیں: کراچی: پُراسرار بیماری سے متاثرہ مریضوں میں اضافہ

وائرل ہونے والے اس مرض اور ڈینگی بخار میں فرق بتاتے ہوئے نجی ہسپتال کے ڈاکٹر امتیاز نے کہا کہ وائرل ہونے والے بخار میں خون کے وائٹ سیل متاثر ہوتے ہیں جبکہ خون کی پلیٹ لیٹس یعنی خون کی روانی میں کوئی کمی نہیں ہوتی جب کہ ڈینگی بخار میں یہ دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں۔

سعود آباد میں موجود المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی ہسپتال کی ڈاکٹرسیدہ رابعہ انجم کے مطابق شہر میں مروجہ ناقص ضابطوں کا اس بیماری کے وائرل ہونے سے بھی تعلق ہے، حکومت کو شہر بھر کی صفائی کرنی چاہئیے، ابھی تک حکومتی عہدیداروں نے ہسپتالوں کا دورہ بھی نہیں کیا ہے۔

ان کے مطابق ان کے ہسپتال میں یومیہ 800 مریض یہی شکایت لے کر آتے ہیں، جس سے متعلق ان کا خیال ہے کہ مچھر کے کاٹنے کے بعد ہونے والا بخار ’چکن گونیا‘ ہے۔

ادھر ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز عبدالوحید پنہور تاخیر سے رد عمل دینے والے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیر صحت، محکمہ صحت کے عہدیداروں اور ماہرین کی ٹیم نے سہولیات کا جائزہ لینے کے لیے دورہ کیا ہے۔

سندھ گورنمنٹ ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ کے مطابق کچھ مریضوں کو ٹیسٹ کرانے کے لیے آغا خان ہسپتال بھیجا گیا ہے کہ جب کہ کچھ نمونوں کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد بھیجا جا رہا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کہا کہ شہر کے کسی اور ہسپتال میں اس مرض سے متعلق کوئی شکایات موصول نہیں ہوئی ہے، سعود آباد ہسپتال کو صوبائی حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے اور یہاں اضافی عملہ تعینات کردیا گیا ہے۔

وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) اسلام آباد کے عہدیدار اکرام جنیدی کےمطابق وائرل ہونے والے‘ چکن گونیا‘ سے خدشات دور کرنے سے متعلق این ایچ ایس اور سندھ حکومت درمیان رابطے کے لیے ایڈوائزری قائم کردی گئی ہے۔

ڈان سے گفتگو میں محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عبدالحفیظ نے کہا کہ اس بیماری کو دوسرے کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی، مریض خود بخود 5 سے 6 دنوں میں صحت یاب ہوجاتا ہے، مریض کو صرف پیراسٹامول اور اس جیسی دیگر ادویات لینی چاہئیے، لوگوں کو میرا مشورہ ہے کہ انہیں خوف زدہ نہیں ہونا چاہئیے۔

یہ بھی پڑھیں: چکن گونیا کیا ہے؟

چکن گونیا میں ہزاروں افراد کے مبتلا ہونے کی میڈیا رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر نے کہا کہ یہ بات قبل از وقت ہے کیوں کہ ابھی تک ایک کیس کی بھی تصدیق نہیں ہوسکی، انہوں نے واضح کیا کہ کچھ نمونوں کو تصدیق کے لیے این ایچ ایس بھیجا گیا، جن کی رپورٹ آنے میں ایک ہفتہ لگے گا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ نے بتایا کہ مریض ڈینگی وائرس کی تصدیق کے لیے پہنچے اور وہاں ڈینگی کے بجائے‘ چکن گونیا‘ کی تشخیص ہوئی، اس کو اچھی خبر سمجھنی چاہئیے کیوں کہ ڈینگی سے ہلاکتیں ہوسکتی ہیں مگر تاحال چکن گونیا سے ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی۔

ڈی جی صحت نے مزید کہا کہ چکن گونیا نیا وائرس نہیں ہے، یہ متعدد بار پاکستان میں پھیلتا رہا ہے،اس بیماری اور ڈینگی وائرس کی احتیاطی تدابیر ایک جیسی ہی ہیں، لوگوں کو صرف مچھروں سے بچنے کی ضرورت ہے۔

وفاقی وزارت صحت کے سیکریٹری ایوب شیخ کے مطابق صورتحال ضابطے میں ہے، نیشنل انسٹی ٹیوٹ ہیلتھ کو نمونے آتے ہی فوری طور پر ان کے جائزے لینے کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

ہیلتھ ایڈوائزری کے مطابق کراچی میں اور خاص طور پرملیر کے علاقے میں‘چکن گونیا‘ کی وبا پھیلنے کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں ، عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) اور محکمہ صحت نے وبا سے متعلق غیر مصدقہ اطلاعات کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

وڈیو دیکھیں: کراچی میں پراسرار بیماری سے سیکڑوں افراد متاثر

ایڈوائزری کے مطابق ‘چکن گونیا‘ مچھروں کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے، جو بخار اور جوڑوں کے درد کا باعث بنتی ہے، اس کے علاہ پٹھوں کے درد، سر درد، متلی اور تھکاوٹ کی شکایت سمیت دیگر شکایات رہتی ہیں۔

جوڑوں کا درد کمزور کردیتا ہے جبکہ اس کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے، اس وبا کی کچھ علامات ڈینگی سے ملتی ہیں اور اس کی غلط تشخیص سے ڈینگی کا ظاہر ہونا عام بات ہے، اس کا کوئی علاج نہیں ہے، ظاہر ہونے والی علامات کا مکمل علاج ہی واحد علاج ہے۔

رہائشی علاقوں کے قریب مچھروں کی افزائش ایک خطرہ ہے، کیونکہ مچھروں سے ہی ’چکن گونیا‘ پھیلتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ بیماری افریقہ میں پائی جاتی ہے، ایشیا اور برصغیر میں حالیہ عشروں میں یہ وبا پھیلی، مچھروں سے پیدا ہونے والی’ چکن گونیا‘ 2007 میں یورپ اور امریکا میں تیزی سے پھیلی جب کہ اس بیماری کا پہلا کیس شمال مشرقی اٹلی میں رپورٹ ہوا۔


یہ رپورٹ 20 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی