سوشل میڈیا کے انوکھے 'چیلنجز'
سوشل میڈیا کے انوکھے 'چیلنجز'
1996 تک دنیا کی صرف ایک فیصد آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی کے حصول کا اندازہ لگایا جاتا ہے جبکہ آج 2016 میں دنیا بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد آبادی کے 46 فیصد حصے تک پہنچ چکی ہے، جس میں، میں بھی شامل ہوں اور آپ بھی۔
یہ حقیقت ہے کہ 21ویں صدی نے آبادی، غربت اور آلودگی کے ساتھ ساتھ طب، صحت عامہ، جدت اور ٹیکنالوجی میں بھی اضافہ ہوتے دیکھا، عرب اسپرنگ ہو، اسامہ بن لادن کی ہلاکت، مریخ کی سطح پر ناسا کے روور کی لینڈنگ یا پھر ہیومن جینوم پروجیکٹ کی تکمیل، یہ سب گذشتہ دو دہائیوں میں ہی ہوا ہے۔
20ویں صدی میں خط لکھتے یا ایمرجنسی میں تار بھیجنے والے کسی شخص کے ذہن میں شاید فیس ٹائم اور واٹس ایپ ویڈیو کال کے تصور کی گنجائش بھی موجود نہ ہو لیکن اب یہ ہمارے معمول کا حصہ ہیں۔
انگریزی مقولے کے مطابق اختیار میں اضافے کے ساتھ ذمہ داری میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور گذشتہ 2 دہائیاں اس کی گواہ ہیں، جدت، ٹیکنالوجی، گلوبلائزیشن نے موجودہ دور کے انسان کو اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی دنیا میں قید کر دیا ہے، ریت رواج کی جگہ ٹرینڈز نے لے لی اور تمدن، جدیدیت کے دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔
سوشل نیٹ ورکنگ کی حیات اور آپسی میل جول کی موت نے دورِ جدید کے انسان کا تعارف نئے مقابلوں اور نئے چیلنجز سے کرایا اور جبکہ یہ چیلنجز بھی 20ویں صدی کے انسان کو درپیش چیلنجز سے کئی زیادہ مختلف اور متنوع ہیں۔
گذشتہ تین چار سال کے ٹرینڈز سے اس کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔
ابلاغ کے تمام ذرائع میں سب سے آگے سوشل میڈیا نے لوگوں کو بےشمار مواقع پر اپنے سحر میں جکڑا، ایسے ہی چند ’چیلنجز‘ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران اس قدر وائرل ہوئے کہ علاج کی تدبیر کا خیال کسی کو نہیں آیا۔
آئس بکٹ چیلنج
ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے نہانا چاہیئے کی اس ترویج کا آغاز جولائی 2014 میں ہوا۔
اس چیلنج کا واحد اور اہم ترین حصہ اپنے اوپر برف اور ٹھنڈے پانی سے بھری بالٹی انڈیلنا تھا اور لوگوں نے اس چیلنج کو بڑی خوشدلی سے قبول کیا، ویڈیوز بنائیں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس چیلنج کے لیے نامزد کرتے چلے گئے۔
اس چیلنج کے وائرل ہوجانے کے بعد صرف فیس بک پر اپلوڈ کی گئی ویڈیوز کی تعداد ایک کروڑ 70 لاکھ بتائی جاتی ہیں، ویڈیو اپلوڈ کرنے والے افراد میں عام لوگوں کے علاوہ کئی مشہور شخصیات جیسے کہ مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس، مشہور اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو، موسیقار جسٹن ٹمبر لیک جیسے نمایاں نام شامل ہیں۔
مرحومہ سیاسی رہنما بینظیر بھٹو کی صاحبزادیوں بختاور اور آصفہ نے بھی یہ چیلنج انجام دیا، جس کی ویڈیو پاکستانی سوشل میڈیا پر کافی مقبول ہوئی، اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما، نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اور اس چیلنج کو پورا کیا۔
لیکن اس چیلنج کا آخر مقصد کیا تھا؟ نہانے کی ترویج؟ ہر گز نہیں! دراصل یہ چیلنج امریکا اور برطانیہ میں ایزموٹر نیورون (اے ایل ایس) نامی ایک بیماری کے بارے میں آگاہی پھیلانے اور اس پر مزید تحقیق کے لیے فنڈز اکھٹا کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔
اے ایل ایس کے لیے کام کرنے والی واشنگٹن کی ایک تنظیم کے مطابق اس چیلنج کے وائرل ہونے اور کئی بڑے ناموں میں اس کی شرکت کے بعد دنیا بھر سے 22 کروڑ ڈالرز کے قریب فنڈز اکھٹا کرنے میں کامیابی ہوئی۔
بُک بکٹ چیلنج
چیلنجز کا یہ سلسلہ دراز ہوتا رہا اور آئس بکٹ چیلنج کے چند ماہ بعد ہی بُک بکٹ چیلنج سامنے آیا، ستمبر 2014 میں سامنے آنے والے اس چیلنج کو قبول کرنے والے افراد کو 10 ایسی کتابوں کے نام شیئر کرنے تھے جو ان کی زندگی میں مثبت رنگ بھرنے کا ذریعہ بنیں۔
بھارتی این جی او کے شروع کیے گئے اس چیلنج نے بھی کافی شہرت حاصل کی اور یہ کینیڈا، ویت نام، بنگلہ دیش اور پاکستان تک پہنچا۔
چیلنجز کا یہ سلسلہ جو کسی مقصد یا آگاہی پھیلانے کے لیے مخصوص تھا سماجی روابط کی ویب سائٹس پہ نوجوانوں کی توجہ سمیٹنے میں بہت کامیاب ہوا، لیکن بعد ازاں ایسے چیلنجز بھی سامنے آنا شروع ہوئے جن کا مقصد تو واضح نہ ہوسکا لیکن انہیں مقبولیت بےپناہ ملی۔
پش اپس چیلنج
رواں سال جولائی میں لارڈز کے میدان میں مصباح کی یادگار سینچری کے بعد لگائے جانے والے پش اپس نے بھی چیلنجز کی فہرست کو طویل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور انٹرنیٹ پر سب ہی ایک دوسرے کو پش اپس لگا کر اس کا حصہ بننے کے لیے نامزد کرتے چلے گئے.
مزید پڑھیں: آخر ہر کوئی پش اپس کیوں لگا رہا ہے؟
کرکٹ کھلاڑی احمد شہزاد جو میدان سے دور تھے انہوں نے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں ہی پش اپس لگائے اور سوشل میڈیا پر ویڈیو شیئر کرکے اس ٹرینڈ کا حصہ بن گئے۔
سندھ کے نئے وزیر کھیل سردار محمد بخش خان مہر بھی پیچھے نہ رہے اور پش اپس لگاتے ہوئے اپنی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی اور ساتھ ہی پنجاب کے وزیر کھیل کو بھی 50 پش اپس کا چیلنج دے ڈالا۔
دلچسپ بات یہ کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ماہ اگست تک دنیا بھر کے لوگ پش اپس لگاتے ہوئے اپنی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے دکھائی دیئے جس کی وجہ امریکی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق فوجیوں کی ذہنی صحت کے مسائل کے حوالے سے شروع کیا جانے والا ایک آگاہی پروگرام تھا۔
مینیقن چیلنج
اکتوبر 2016 میں انٹرنیٹ صارفین کے ہاتھ ایک نیا چیلنج لگ چکا تھا جس کا نام مینیقن چیلنج تھا.
اس مقابلے کا حصہ عام افراد سے زیادہ ادارے بنے اور اپنی وڈیوز سے سوشل میڈیا کے ہنگامے کا حصہ بنائیں.
جیسا کہ نام سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ویڈیو میں شریک افراد مینیقن یا پتلے کی طرح منجمد دیکھے جاسکتے تھے، کوئی فون پہ بات کرتے ہوئے تو کوئی کچھ کھاتے ہوئے، ساکت اور بالکل ٹھہرا ہوا. اس چیلنج کو بھی اس کے انوکھے پن کی وجہ سے کافی پذیرائی حاصل ہوئی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے.
ڈب چیلنج
ابھی مینیقن چیلنج کا غبار چھٹ بھی نہ پایا تھا کہ ایک اور چیلنج نے سوشل میڈیا صارفین کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیا یہ چیلنج بھی کچھ منفرد نوعیت کا تھا لیکن چونکہ یہ اجتماعی کے بجائے انفرادی طور پر انجام دیا جاسکتا تھا تو لوگوں کی بڑی تعداد اس کا حصہ بنتی دکھائی دی.
اس چیلنج کے شرکا بچپن لڑکپن اور نوجوانی کی تصاویر شیئر کرکے اپنے آپ میں ہونے والی مثبت تبدیلیوں کو واضح کرتے اور اس پر فخر کرتے دکھائی دیے.
یہ بھی پڑھیں: انٹرنیٹ پر وائرس کی طرح پھیلتا نیا ٹرینڈ
یہ بلاشبہ فطری عمل ہے کہ بچپن کی دہلیز پار کرتے ہی لوگوں کے انداز اور شخصیت میں ردوبدل ہوجاتی ہے، اس چیلنج میں انہیں تبدیلیوں کو تصاویر کی مدد سے شیئر کیا جاتا رہا. مثلاً اگر کوئی موٹا تھا تو اس نے کس طرح اپنے وزن پر قابو پایا یا بچپن کے مقابلے میں کیسے وہ گروم ہوئے اور اپنے موجودہ حال تک پہنچے.