پی ٹی آئی کا پاناما کمیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ، سماعت ملتوی
اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس کی درخواستوں پر مختصر سماعت کی۔
اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور دیگر رہنماؤں سمیت مسلم لیگ (ن) کے وکلاء بھی موجود تھے۔
سماعت کے دوران پاناما لیکس پر کمیشن کی تشکیل کے لیے فریقین نے عدالت کو آگاہ کیا۔
وزیراعظم نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ اور ان کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت جو بہتر سمجھے وہ کرے، کمیشن کی تشکیل پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی ہم عدالت کے کسی کام میں رکاوٹ بنیں گے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ ہم کمیشن کے قیام کے خلاف ہیں، اگر کمیشن تشکیل دیا گیا تو بائیکاٹ کریں گے۔
نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنا کیس بنا دیا ہے عدالت اس پر فیصلہ دے۔
مزید پڑھیں:پاناما لیکس کیس: ’فیصلہ کمیشن نہیں سپریم کورٹ کرے‘
یاد رہے کہ گذشتہ روز پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے بھی کہا تھا کہ وہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن کا قیام نہیں چاہتے بلکہ ان کی خواہش ہے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ ہی اس کا فیصلہ کرے۔
دوسری جانب عدالت عظمیٰ میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ لوگ اصرار کر رہے ہیں کہ فیصلہ 5 رکنی بینچ ہی دے، اگر کیس ہار بھی گئے تو قوم سمجھے گی کہ عدالت کا فیصلہ درست تھا۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیس کا خود فیصلہ کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں، ہم تمام فریقین کو سننا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ کمیشن بنانے کا مقصد یہ ہے کہ بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ کیس ثابت کرنے کا موقعہ نہیں ملا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کمیشن کی تشکیل عدالت کی صوابدید ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پامانا لیکس کمیشن :'فیصلہ چیف جسٹس کریں گے'
اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ممکن نہیں ہے کہ دو دنوں میں سماعت کر کے فیصلہ کیا جائے، کچھ دنوں میں سردیوں کی چھٹیوں کا بھی آغاز ہونے والا ہے، اس صورتحال میں سماعت جاری رکھنا ممکن نہیں، لہذا سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی جائے۔
بعدازاں کیس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی گئی تاہم کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی۔
'کیس کی نئے سرے سے سماعت ہوگی'
واضح رہے کہ پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کے سربراہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی رواں ماہ 31 دسمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں، ان کے بعد جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے بعد لارجر بینچ ختم ہوجائے گا اور پاناما لیکس کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا جائے گا۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ نئے بینچ کی تشکیل کے بعد کیس کی نئے سرے سے سماعت ہوگی اور وکلاء کو دوبارہ دلائل دینا ہوں گے۔
میں یہ کیس بھولنے نہیں دوں گا، عمران خان
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے بنی گالہ میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ کیس کا فیصلہ جلد از جلد ہوجائے، ساتھ ہی انھوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ یہی بینچ اس کیس کو سنے گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ قوم 8 ماہ سے سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ فکر نہ کریں لوگ اس کیس کو بھول جائیں گے، لیکن میں وزیراعظم نواز شریف کو بتادینا چاہتا ہوں کہ میں عوام کو یہ کیس بھولنے نہیں دوں گا۔
انھوں نے خواجہ آصف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا 'میں یہ کیس بھولنے نہیں دوں گا'۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اس کیس کے لیے کمیشن کی ضرورت ہی نہیں اور وہ اسے منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔
اس موقع پر انھوں نے جسٹس ثاقب نثار کو مبارکباد پیش کرتے کہا کہ نئے چیف جسٹس پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوگی۔
پاناما لیکس کیس— گذشتہ سماعتوں کا احوال
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔
سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر 2016 کو وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی تھی، بعدازاں اس کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس: وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری
28 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، لارجر بینچ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔
یکم نومبر:
یکم نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پر تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 نومبر تک ملتوی کردی تھی۔
3 نومبر:
3 نومبر کی سماعت میں وزیر اعظم کی جانب سے ان کے وکیل نے جواب داخل کرایا جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بھی اپنے ٹی او آرز جمع کرائے تھے۔
عدالت نے وزیراعظم کے بچوں کی جانب سے جواب داخل نہ کرائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ کی سرزنش کی تھی جبکہ جواب داخل کرنے کے لیے 7 نومبر تک کی مہلت دی تھی۔
بعد ازاں تحریک انصاف نے کمیشن کے حوالے سے سماعت کے بعد سپریم کورٹ میں اپنے ٹی او آرز جمع کروائے جبکہ وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے بھی اپنا جواب اور ٹی او آرز عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیا تھا۔
7 نومبر:
7 نومبر کی سماعت میں وزیراعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم صفدر نے جواب داخل کرائے تھے۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے تمام فریقین کو ہدایت کی تھی کہ وہ 15 نومبر تک دستاویزی شواہد پیش کریں جبکہ کیس کی سماعت بھی 15 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔
15 نومبر:
15 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران وزیراعظم اور ان کے بچوں کی جانب سے 400 صفحات سے زائد پر مشتمل دستاویزات عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئیں، جن میں وزیراعظم نواز شریف کے ٹیکس ادائیگی سمیت زمین اور فیکٹریوں سے متعلق تفصیلات اور زمینوں کے انتقال نامے بھی شامل تھے۔
عدالت میں قطر کے سابق وزیر خارجہ شہزادے حماد بن جاسم بن جبر الثانی کا تحریری بیان بھی پیش کیا گیا تھا۔
یہاں پڑھیں: قطری شہزادے کا خط اور وزیراعظم کا موقف مختلف: سپریم کورٹ
17 نومبر
بعدازاں 17 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی جانب سے پاناما لیکس کے معاملے پر جمع کرائے گئے شواہد پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ 680 صفحات پر مشتمل جواب کا شریف خاندان کی لندن میں موجود جائیدادوں سے کوئی لینا دینا نہیں، عدالت کا کہنا تھا، 'ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کون سا وکیل کس کی نمائندگی کررہا ہے'، بعدازاں کیس کی سماعت 30 نومبر تک ملتوی کردی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: آپ کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی وکیل سے سوال
جس کے بعد حامد خان نے سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے میں پی ٹی آئی کی نمائندگی سے معذرت کرلی تھی۔
30 نومبر
30 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جہاں میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی، وہیں پی ٹی آئی کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف کے پاس دبئی، سعودی عرب اور لندن فلیٹس کا کوئی منی ٹریل نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس پر میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت
6 دسمبر
6 دسمبر کو سماعت کے دوران حکومتی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے 3 سوالات اٹھاتے ہوئے کیس کی سماعت 7 دسمبر تک ملتوی کردی تھی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے 3 سوالات اٹھائے گئے تھے:
- وزیراعظم کے بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں؟
- زیر کفالت ہونے کا معاملہ
- وزیراعظم کی تقریروں میں سچ بتایا گیا ہے یا نہیں؟
مزید پڑھیں:پاناما لیکس: سپریم کورٹ نے 3 سوالات اٹھا دیئے
7 دسمبر
7 دسمبر کو پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن کی تشکیل کے لیے مشاورت کا وقت دیتے ہوئے عدالت نے پاناما لیکس پر وزیراعظم کے خلاف درخواستوں کی سماعت 9 دسمبر تک ملتوی کردی تھی۔