دنیا

بھارت کا آبدوزوں کو پیچھے دھکیلنے کا دعویٰ ماننے سے انکار

بھارت ’آپریشنل ضروریات‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے آبدوزوں کی تعیناتی جاری رکھے گا، سربراہ انڈین نیوی ایڈمرل سنیل لامبا

بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل سنیل لامبا نے پاکستان کے اس دعوے کو ماننے سے انکار کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ پاک بحریہ نے گزشتہ ماہ کراچی کے قریب سمندری حدود میں بھارتی آبدوزوں کا سراغ لگایا تھا۔

بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق کئی ہفتوں بعد اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایڈمرل لانبا نے کہا کہ ’پاکستان جس علاقے کی بات کررہا ہے وہاں کوئی آبدوز تعینات نہیں‘۔

بھارتی بحریہ کے قومی دن کے موقع پر نئی دہلی میں منعقد سالانہ میڈیا کانفرنس سے خطاب میں ایڈمرل لامبا نے کہا کہ ’جہاں تک آبدوز کو دو بھگانے کی بات ہے تو یہ کوئی آسان کام نہیں، اس حوالے سے پاک بحریہ کا دعویٰ غیر حقیقی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی آبدوز کی پاکستانی حدود میں داخل ہونے کی کوشش

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت ’آپریشنل ضروریات‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے آبدوزوں کی تعیناتی جاری رکھے گا۔

واضح رہے کہ نومبر میں پاک بحریہ نے دعویٰ نے کہا تھا کہ اس نے بھارتی بحریہ کی آبدوز کو پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہونے سے روکا تھا۔

اس وقت پاک بحریہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’بھارتی بحریہ اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے آبدوزوں کو تعینات کررہی تھی لیکن پاک بحریہ کو پتہ لگ گیا اور اس نے اپنے صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آبدوزوں کو پاکستانی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان میری ٹائم ڈاکٹرائن کی تیاری میں مصروف

یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاک بحریہ نے بھارتی آبدوزوں کی اپنی موجودگی کو خفیہ رکھنے کی کوشش کو ناکام بنایا اور انہیں واپس دھکیل دیا۔

پاک-ہندوستان کشیدگی

بھارتی بحریہ کی جانب سے پاکستانی سمندری حدود کی خلاف ورزی کی کوشش ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور ورکنگ باؤنڈری پر بھی ہندوستانی افواج کی جانب سے سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزیاں حالیہ کچھ عرصے سے ایک معمول بن چکی ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں 18 ستمبر کو ہونے والے اڑی حملے کے بعد سے کشیدگی پائی جاتی ہے، جب کشمیر میں ہندوستانی فوجی مرکز پر حملے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کا الزام نئی دہلی کی جانب سے پاکستان پر عائد کیا گیا تھا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔

بعدازاں 29 ستمبر کو ہندوستان کے لائن آف کنٹرول کے اطراف سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے نے پاک-بھارت کشیدگی میں جلتی پر تیل کا کام کیا، جسے پاک فوج نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان نے اُس رات لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اور بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 2 پاکستانی فوجی جاں بحق ہوئے، جبکہ پاکستانی فورسز کی جانب سے بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سرجیکل اسٹرائیکس کابھارتی دعویٰ 'جھوٹا'

14 نومبر کو بھی لائن آف کنٹرول پر ہندوستان فورسز کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں پاک فوج کے 7 جوان جاں بحق ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ ’ہمارے 7 جوانوں کی شہادت کے دن بھارت کے 11 فوجی مارے گئے تھے، ہم اپنے جوانوں کی شہادت کو تسلیم کرتے ہیں، بھارتی فوج بھی مردانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہلاک فوجیوں کا بتایا کرے'۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ایل او سی پر اب تک 45 سے زائد بھارتی فوجی مارے جاچکے ہیں۔

ان واقعات کے بعد حالیہ دنوں میں ہندوستان کے ہائی کمشنر اور ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور بھارتی سفارتکاروں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ ان واقعات کی تحقیقات کی جائیں گی اور اس کی تفصیلات پاکستان کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔