پاکستان

’پاکستان بُلٹ ٹرین کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا‘

جب ہم چین سے بلٹ ٹرین کی بات کرتے ہیں تو وہ ہم پر ہنستے ہیں،وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا قومی اسمبلی میں خطاب

وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے قومی اسمبلی میں واضح طور پر یہ کہہ دیا کہ پاکستان ’بلٹ ٹرین‘ کے اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں حالانہ حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے انتخابی مہم کے دوران عوام کو بلٹ ٹرین کا تحفہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔

سعد رفیق نے کہا کہ ’جب ہم چین سے بلٹ ٹرین کی بات کرتے ہیں تو وہ ہم پر ہنستے ہیں، ہمیں سی پیک کے تحت 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ٹرین کو ہی بلٹ ٹرین سمجھنا چاہیے، ہم حقیقی بلٹ ٹرین کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے اور یہاں اس کی مارکیٹ بھی نہیں ہے‘۔

انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بلٹ ٹرین منصوبہ شروع نہ کرنے پر ان کی جماعت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہمارے پاس بلٹ ٹرین بنانے کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں۔

سعد رفیق نے کہا کہ ’اگر ہم بلٹ ٹرین بنا بھی لیں تو ہمارے پاس امیر اور متوسط طبقے کے اتنے زیادہ مسافر ہی موجود نہیں جو مہنگے ٹکٹ خرید سکیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: سیاسی و فوجی حکومتیں ریلوے کی تباہی میں حصہ دار، سعد رفیق

قومی اسمبلی کے فلور پر خواجہ سعد رفیق نے اپنے دو ٹوک خطاب میں محکمہ ریلوے کی کارکردگی کا عمومی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ وہ اپنے محکمے کو صاف کرنے اور اسے منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔

انہوں نے ایوان کو بتایا کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان ریلوے کی زمین پاکستان ریلویز کے حوالے کرنے سے گریزاں ہیں جس کی وجہ سے ادارہ انہیں استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے سے قاصر ہے۔

سعد رفیق نے کہا کہ ’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک بھر میں ریلوے کی زمینیں صوبائی حکومت کی ملکیت ہیں تاہم ان کا قبضہ پاکستان ریلویز کے پاس ہے، صوبے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ان زمینوں کو ہمارے نام منتقل کرنے کو تیار نہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایسا کوئی وزیر اعلیٰ نہیں جس سے میں نے گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران درخواست نہ کی ہو سوائے خیبر پختونخوا کے جنہوں نے 90 فیصد اراضی ہمیں دے دی ہے لیکن دیگر صوبوں نے ہمیں ایک مرلہ زمین بھی نہیں دی‘۔

انہوں استفسار کیا کہ ’ہم کس طرح اس زمین سے مالی فوائد حاصل کرسکتے ہیں جو ہمارے نام پر ہی نہیں‘؟

مزید پڑھیں: کراچی: دو ٹرینوں میں تصادم،22 افراد ہلاک

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ریلوے کی جس زمین پر مقامی باشندے یا جھونپڑ پٹیاں قائم ہیں انہیں نہیں چھیڑا جائے گا۔

سعد رفیق نے کہا کہ ’ہم ان لوگوں کو کیسے بے دخل کرسکتے ہیں؛ وہ کہاں جائیں گے؟‘۔

وزیر ریلوے نے کہا کہ جو لوگ ریلوے کی زمین کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

سعد رفیق کو اسمبلی میں محض ریلوے کی اراضی کے عدم استعمال کی وجوہات بتانی تھیں لیکن انہوں نے اپنی جامع تقریر میں ریلوے کے ہر پہلو پر بات کی۔

چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے وابستہ منصوبوں کے حوالے سے چینی حکام سے مذاکرات کے تجربے پر بات کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ چیزیں اتنی آسان نہیں تھیں جتنی دکھائی دیتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم دو روپے مالیت کا قلم 10 روپے میں نہیں خریدیں گے، جب تک میں اس محکمے کو چلارہا ہوں ایسا نہیں ہوگا‘۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ کے ریلوے پھاٹک یا موت کے پھندے؟

سعد رفیق نے بتایا کہ ’لاہور پشاور جنکشن کی فنڈنگ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) سے کرنے کی درخواست کی جس پر ہمارے چینی دوستوں نے ناراضی کا بھی اظہار کیا لیکن ہم نے یہ بات واضح کردی کہ یہ ہماری صوابدید ہے اور انہیں کراچی لاہور ٹریک تک محدود رہنا ہے جبکہ ہم بالائی علاقوں کے ٹریکس ای ڈی بی کے تعاون سے بنائیں گے‘۔

انہوں نے سابقہ انتظامیہ کی بد انتظامیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ریلوے کے مسائل ورثے میں ملے، ڈائننگ کارز میں ناقص اور ملاوٹ والا کھانا ہوتا تھا، ریل کے انجن سے اصلی پرزے نکال لیے جاتے تھے۔

سعد رفیق کی تقریر کے دوران سابق وزیر ریلوے غلام احمد بلور جن کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے ہے، ایوان میں موجود تھے لیکن جوں ہی سعد رفیق نے ان کے ٹریک ریکارڈ پر بات کرنا شروع کی تو وہ ایوان سے باہر چلے گئے۔

کراچی سرکلر ریلوے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پروجیکٹ غلط طریقے سے مختلف حکومتوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور زیادہ مالی بوجھ وفاقی حکومت پر ڈال دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’وفاق کو تو قومی ریلوے سسٹم چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے تو آپ ہم اندرون شہر ریلوے نظام بنانے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں‘؟

سعد رفیق نے کہا کہ دنیا بھر میں میٹرو اور لوکل ٹرینیں خودمختار اتھارٹی کی جانب سے چلائی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام ٹرینوں کی مرمت ہاتھ سے کی جاتی ہے، ’ہم کوشش کررہے ہیں کہ اس عمل کو خودکار بنایا جاسکے جس کی وجہ سے انسانی غلطیوں اور حادثاتی اموات سے بچا جاسکے گا‘۔

یہ خبر 30 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی