نقطہ نظر

44 فیصد پاکستانی بچوں کا مستقبل تاریک کیوں؟

اس میں شک نہیں کہ غربت ایسے مسائل کی ماں ہے مگر معلومات کی کمی کئی سفید پوش گھروں میں بھی موت بانٹنے کا سبب ہوتی ہے۔

ہمارے ایک دوست پہلی بار اسکینڈے نیویا آئے تو مجھے روز کہتے کہ یہاں کے بچوں کی صحت دیکھتا ہوں تو رشک آتا ہے۔

یہاں کے پندرہ سال کے بچوں کے قد کاٹھ، اور جسامت پاکستانی بچوں سے کافی بہتر ہے اور ان کے چہروں پر شگفتگی اور تازگی ملاحظہ ہو، نوجوانی کیا ہوتی ہے، جوبن کسے کہتے ہیں انہی نوخیز بچوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے۔

ہم جیسے دیسی لوگوں کے لیے پردیس کی کسی بھی خوشنمائی سے متاثر ہو جانا کوئی نئی بات نہیں ہے، اس لیے میں نے ان کی باتوں کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا۔ میرا خیال تھا کہ خیر ایسا بھی نہیں ہے پاکستان میں بھی بچوں کے چہرے گلابی ہیں، اور حالیہ دنوں کی تو بات ہے جب ایک چائے والے کی آنکھوں نے دنیا کو دیوانہ بنا کر رکھ دیا۔

لیکن کچھ دن پہلے الجزیرہ ٹی وی کی ایک دستاویزی فلم کے توسط سے پتہ چلا کہ پاکستان کے 44 فیصد بچے اپنی نشوونما کے حساب سے عام بچوں سے پیچھے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے نمائندگان نے بھی اس حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے نزدیک اس اہم مسئلے پر ہنگامی بنیادوں پر کام ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 44 فیصد کا مطلب ہے کہ بچوں کی تقریباً نصف آبادی نشوونما کے معیار پر پوری ہی نہیں اترتی۔

پڑھیے: ماؤں اور بچوں کے قاتل ہم

مزید برآں، آنے والے پندرہ سالوں میں ان چھوٹے قد کے بچوں کی ایک پوری نسل جوان ہو کر ہمارے سامنے ہوگی۔ ویسے تو ہماری آنکھیں صرف کسی بڑے سانحے کے رونما ہونے پر ہی کھلتی ہیں، مگر نہ جانے ایسے مسائل پر کب ہماری آنکھیں کھلیں گی جو آہستہ آہستہ دیمک کی طرح ہماری ایک پوری نسل کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔

ہمارے ملک میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جو ان مسائل پر سوچے اور پالیسی سازی کرے۔ اس پست قد نسل کو ذہنی حوالے سے بھی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے اور بیماریوں کے خلاف ان کا مدافعتی نظام کمزور ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی اس نئی نسل کی بہتر نمو اور بڑھوتری کے لیے ہمیں ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ دو سال پہلے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے فوڈ سائنس ڈیپارٹمنٹ کی ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع حاصل ہوا تھا جس میں بچوں کی غذائی ضروریات، عدم توازن اور فوڈ سیکورٹی کے معاملات زیر بحث آئے۔

ورکشاپ میں ڈاکٹرز، فوڈ سانئٹسٹ، چند ہوم اکنامکس کے ستارے، طلبہ اور کچھ مجھ جیسے خواب دیکھنے والے بھی شریک تھے۔ ورکشاپ کے مقرر جناب چندرا پرکاش جوشی تھے۔ وہ نیپال سے تعلق رکھتے ہیں اور غذائی عدم توازن کے خلاف ایسے مہمات کا حصہ ہیں۔

انہوں نے متعلقہ موضوع پر سیر حاصل باتیں کیں اور کچھ ایسی باتوں کی طرف بھی اشارہ کیا جو ہمارے معاشرے میں کم علمی کی بنا پر پھیلا دی گئی ہیں، جیسے ماں بیمار ہے تو وہ بچے کو دودھ نہیں پلا سکتی۔

اس ورکشاپ سے مجھے پتہ چلا کہ لاکھوں بچے غذائی عدم توازن کی بدولت شیر خوارگی میں ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ان بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کا انحصار حمل شروع ہونے سے لے کر اگلے ایک ہزار دنوں پر ہوتا ہے، جس میں ایک بچہ آغوش مادر میں پروان چڑھنے کا آغاز کرتا ہے، اپنی سانسیں بحال کرتا ہے اور بدن اوڑھ کر اس دنیا میں چلا آتا ہے۔ پھر خوراک کی بنیادی ضرورت کے لیے اپنی ماں کا محتاج رہتا ہے۔

مزید پڑھیے: اب معاشرے کو دفاع کی ضرورت ہے

اگر ان ایک ہزار دنوں کو بچے کی زندگی کی بنیاد سمجھ کر مضبوط کر دیا جائے تو اس بنیاد پر تعمیر عمارت بڑے سے بڑا طوفان سہنے کی طاقت رکھے گی۔ بچوں کے عالمی ادارے یونیسیف کی طرف سے نیپال میں اسی طرز کا ایک پروگرام ترتیب دیا گیا تھا جس کا نام گولڈن تھاؤزنڈ ڈیز، یا ایک ہزار سنہری دن رکھا گیا۔

ہمارے ایک سائنس دان دوست نے ہمارے علم میں اضافہ کیا کہ بچوں کی صحت اور افزائش سے متعلقہ مراحل ماں کے پیٹ میں متعین ہو جاتے ہیں۔ اگر بچے کے ان بچوں کی زندگی کے ان ابتدائی دنوں کا بہتر انتظام کر لیا جائے تو ان دنوں کو سنہری ہزار دنوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، ہزاروں بچوں کو ان ہزار دنوں میں موت کے منہ سے کھینچ کر زندگی کی روشنی میں لایا جا سکتا ہے، ان کی ادھ موئی زندگی میں رنگ اور رونق بھری جا سکتی ہے، ان ہزار دنوں میں وہ مضبوط بنیاد فراہم کی جاسکتی ہے جو ان بچوں کو عام بچوں کے برابر کھڑا کر سکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ غربت ایسے مسائل کی ماں ہے، مگر معلومات کی کمی کئی سفید پوش گھروں میں بھی موت بانٹنے کا سبب ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں عام گھروں میں ماؤں کی صحت کا خیال حمل کے بعد رکھا جاتا ہے، حالانکہ بچے کی غذائی ضروریات کا آغاز تو ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔

اس ورکشاپ کے آخر میں شرکا نے طے کیا تھا کہ وہ ان ہزار دنوں کو سنہرا کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور اس بات کا عزم کیا گیا کہ وہ معلومات کو اتنا عام کریں گے کہ عام لوگوں تک یہ بات پہنچ جائے کہ یہ ہزار سنہرے دن موت اور زندگی کی درمیان تیاری کا مرحلہ ہے،

جانیے: بھوک کا شکار 118 ملکوں میں پاکستان کا 107 واں نمبر

اس کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ ایک قوم کے لیے ایک محفوظ ترین سرمایہ کاری ہے، اس دن ہم سب نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم اس آگہی مہم کے لیے ایک فیس بک پیج کا بھی آغاز کریں گے جس کا نام Golden 1000 days رکھا جائے گا۔

یہ پیج اب بھی موجود ہے، لیکن یہ صفحہ بھی ہماری بے اعتنائی کا شکار ہو گیا۔ یہ نئی رپورٹ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ آئیے پھر سے اکٹھے ہوں، پھر سے یہ آگہی پھیلائیں تا کہ ہماری آنے والی نسلیں بے رونق نہ ہوں،

کبھی وقت ملے تو ضرور سوچیے کہ وہ پھول جو بن کھلے مرجھا جاتے ہیں اور وہ شاخیں جو شگوفوں سے ناآشنا ہو کر اجڑ جاتی ہیں، ان کا دکھ کیسے بیان کیا جا سکتا ہے؟

وہ مائیں جن کے نومولود دنیا میں آتے ہی موت سے جنگ میں جھونک دیے جائیں، وہ ننھی جانیں جن کی آنکھ بھی نہ کھلی ہو، جن کے قدم ابھی زمین پر بھی نہ پڑے ہوں، جنہوں نے زندگی کی درسگاہ سے نفرت اور لڑائی کا ایک سبق بھی نہ پڑھا ہو، وہ کیونکر اس عفریت کو مات دے سکتے ہیں؟

بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی دوسری سالگرہ تک اگر ہم بچے کو آنے والی دنیا کے لیے تیار کر لیں تو ڈھائی لاکھ زندگیاں سالانہ بچائی جاسکتی ہیں، بس ضرورت ہے تو صرف تھوڑی بہت تیاری، توجہ اور انویسٹمنٹ کی۔

رمضان رفیق

رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔