کراچی میں پانی کے ٹینکرز باآسانی ہر جگہ دکھائی دے جاتے ہیں— برنامج/Flickr
فرید صاحب کا کہنا تھا کہ، 'جس تیزی سے کراچی کی آبادی بڑھ رہی ہے اس رفتار سے انتظامات ترتیب دینا مشکل ہوتے جا رہے ہیں، چاہے آپ جتنے بھی منصوبے بنالیں، آبادی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور ساتھ ہی میں نئے صنعتی یونٹس قائم ہوتے جا رہے ہیں'۔
حقیقت یہ ہے کہ KWSB شہر کے نواحی علاقوں میں موجود بیس سے تیس لاکھ افراد کو پانی فراہم کرتا ہے جو کہ ایک اضافی بوجھ ہے۔
پانی مافیا
پانی کی فراہمی میں حکومتی ناکامی نے پانی مافیا کے لیے راہ ہموار کردی ہے، شہر میں پانی کا کوئی بیس فیصد حصّہ پانی کے ٹینکرز فراہم کرتے ہیں بشمول ان علاقوں میں جہاں KWSB کی سپلائی پہلے سے موجود ہے۔
ان پانی کے ٹینکرز کو ایک ماہ کے لیے کوئی 6 سے 10 ہزار روپے (57 USD سے 95.50 USD) تک ادا کیے جاتے ہیں، یا یوں کہیں سرکاری قیمت سے تیس گنا زیادہ، لیکن لوگ یہ رقم بخوشی ادا کرتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔
عام اندازے کے برعکس، بعض اوقات سپلائی متمول علاقوں میں پانی ناقص جبکہ درمیانے علاقوں میں زیادہ بہتر ہے، اس کی بنیادی وجہ پہلے سے قائم شدہ بنیادی ڈھانچوں کا معیار ہے، کلفٹن بلاک آٹھ کی رہائشی زبیدہ کہتی ہیں، 'ہم ٹینکر سے پانی منگواتے ہیں لیکن بعض اوقات پانی کی کوالٹی اچھی نہیں ہوتی، اکثر بڑی رقم ادا کرنے کے باوجود گھنٹوں ٹینکرز کا انتظار کرنا پڑتا ہے، یہ شہر کا ایک متمول علاقہ ہے لیکن یہاں KWSB کی طرف سے پانی کی فراہمی باقائدگی سے نہیں ہوتی'۔
بہرحال، صدر ٹاؤن جیسے کمرشل علاقوں میں اکثر رہائشیوں کو پانی کی فراہمی KWSB سے باقاعدہ ہوتی ہے، ایم اے جناح روڈ پر واقع ایک پلازہ کے رہائشی محمّد ہارون نے بتایا کہ، 'ہم عموماً ہر ماہ ڈھائی سو روپے (2.39 USD) ادا کرتے ہیں اور KWSB روزانہ دو گھنٹے پانی سپلائی کرتا ہے، پانی کا معیار بھی برا نہیں ہوتا'۔
کچی آبادیوں کی حالت دونوں علاقوں کے مقابلے میں زیادہ بدتر ہے یہاں نہ مناسب انفراسٹرکچر موجود ہے اور نہ ہی رہائشیوں کی مالی صورتحال اس قدر بہتر ہے، اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ایک تحقیق کے مطابق، کچی آبادیوں کے رہائشی، درمیانے طبقے کے علاقوں کے مقابلے میں تیرہ گنا زیادہ پیسے دیتے ہیں۔
غیر قانونی ہائیڈرنٹس سے لے کر غیر قانونی ٹینکرز تک
غیر قانونی ہائیڈرنٹس، مرکزی سپلائی لائن سے پانی نکالتے ہیں، روزانہ تقریباً دس ملین گیلن پانی پائپ لائن میں موجود پانی سے چرایا جاتا ہے، پھر یہ چوری شدہ پانی ٹینکرز کے ذریعے دیگر علاقوں کو فراہم کیا جاتا ہے، یہ لوگ ٹینکرز کے ذریعے پانی کے غیر سرکاری اور بے ضابطہ سپلائر بنے بیٹھے ہیں، سندھ کی صوبائی حکومت نے کئی بار ان غیر قانونی ہائیڈرنٹس کےخلاف آپریشن کیا اور ان کی تنصیبات کو ختم بھی کیا لیکن کچھ عرصہ خاموشی کے بعد یہ غیر قانونی کاروبار پھر شروع ہو جاتا ہے۔
کنگرانی صاحب نے بتایا کہ غیر سرکاری ٹینکرز اور غیر قانونی ہائیڈرنٹس کراچی سے سالانہ 57 بلین (USD 540 ملین) مالیت کا پانی چوری کرلیتے ہیں، لیکن سندھ حکومت کے کامیاب آپریشنز کے باوجود خاص فرق نہیں پڑتا، بدعنوان پولیس افسر آپریشن سے پہلے ہی پانی کے اسمگلرز کو خبردار کردیتے ہیں، ان سب کے باوجود، حال ہی میں KWSB لانڈھی اور ملیر جیسے چند علاقوں میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کا خاتمہ کرنے میں کامیاب رہا۔
فرید صاحب کہتے ہیں کہ، 'تمام تر مشکلات کے باوجود ہم پانی چوری کے خلاف مہم کو کامیاب بنانے کے لیے کوشاں ہیں، مگر شہر کے نواحی علاقوں، جیسے منگھوپیر اور ناردرن بائی پاس سے ملحقہ علاقے میں لوگ بڑی تیزی سے ہائیڈرنٹس لگا لیتے ہیں، ہماری ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ، بدقسمتی سے علاقے کی پولیس اس طرح کے غیر قانونی اقدام سے باخبر ہونے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کرتی'۔
وہ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ شہر کے مختلف علاقوں میں مجرموں کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود ان پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور نہ ہی عدالتوں میں یہ مقدمات کسی منطقی انجام تک پہنچ پاتے ہیں۔
ٹینکرز مسئلے کا حل ہیں یا وجہ؟
آل کراچی واٹر ٹینکرز اتحاد کے صدر محمّد طارق سدوزئی شہر میں ٹینکرز کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہر کے لیے پانی کی مطلوبہ مقدار کا ذخیرہ تو موجود ہے لیکن KWSB پانی شہریوں تک پہنچانے سے قاصر ہے۔ 'چناچہ ہم یہاں شہریوں کی مدد کے لیے موجود ہیں، ہم پانی کو غیر قانونی طور پر نہیں اٹھاتے، ہمارا کام صرف پانی کی ترسیل ہے اور جہاں ضرورت ہو ہم ہائیڈرنٹس سے پانی ٹینکرز میں بھر کر مطلوبہ علاقے تک پہنچا دیتے ہیں، زیادہ تر ہائیڈرنٹس با رسوخ لوگ چلاتے ہیں جنہیں KWSB کی حمایت حاصل ہے'۔
قیمتوں میں واضح فرق کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ قیمتوں کا تعین ہائیڈرنٹس والے کرتے ہیں، سدوزئی مزید کہتے ہیں کہ چونکہ حکام ان ہائیڈرنٹس کو بند کرنے میں ناکام رہے ہیں چناچہ بہتر یہ ہے کہ انہیں قانونی حیثیت دے دی جائے اور KWSB ریونیو کا ایک حصّہ بھی متعین کردے۔
ہائیڈرنٹس مالکان کے اپنے جواز ہیں، ایک ہائیڈرنٹ مالک نے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'KWSB مطلوبہ پانی کی ضرورت پورا نہیں کر پاتا جس کے باعث شہر کے کئی علاقوں میں پانی کی طلب پیدا ہو جاتی ہے، اسی لیے با رسوخ افراد نے غیر قانونی ہائیڈرنٹس لگا رکھے ہیں'، وہ کہتے ہیں کہ 'ہم پانی کا انتظام کرتے ہیں، رشوت دیتے ہیں تاکہ یہ ہائیڈرنٹس آرام سے اپنا کام کرتے رہیں اور یہ سب اس لیے کہ شہریوں کو پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے'۔
صاف پانی کی ضرورت ایک پورے خطے کا مسئلہ
پانی کے مسائل، فراہمی کی قلّت سے لے کر غیر قانونی ہائیڈرنٹس، پانی مافیا اور عوام کی خدمات جیسے دعووں تک صرف کراچی کا ہی مسئلہ نہیں، بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی بھی یہی صورتحال ہے، وہاں کا پانی مافیا بھی اپنی کارروائیوں کا جواز پانی کی مؤثر ترسیل میں حکومتی ناکامی اور خاص طور پر کچی آبادیوں میں بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کو قرار دیتا ہے۔
بھارت کی مشرقی ریاست، مغربی بنگال کا دارالحکومت کبھی پانی سے مالامال شہر سمجھا جاتا تھا اب رفتہ رفتہ وہاں بھی پانی کی قلّت پیدا ہوتی جا رہی ہے، وجہ؟ خستہ حال انفراسٹرکچر اور غیر قانونی اسٹینڈ پوسٹس (کلکتہ میں پانی کے ہائیڈرنٹس کو کہا جاتا ہے) کا پھیلاؤ۔ ان تمام شہروں میں پانی کے پرانے، بوسیدہ بنیادی ڈھانچہ، بدعنوان سیاست اور بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے ساتھ پانی کی مزید طلب نے ملکر ایک انتہائی مشکل صورتحال پیدا کردی ہے۔
اب تک اس مسئلے کا کوئی ٹھوس حل تو نہیں نکالا جاسکا، مگر بعض لوگ واٹر ٹینکرز والوں کے خیالات سے متفق ہیں کہ موجودہ حالات میں بہترین حل یہ ہے کہ غیر قانونی ترسیل کو قانونی حیثیت دے دی جائے اور اس سے حاصل ہونے والے ریونیو سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و مرمّت کی جائے، شہری منصوبہ ساز اور مصنف نعمان احمد کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کو چاہیے کہ ان واٹر ٹینکرز کو اپنے دائرہ کار میں لائے، اسے ایک تجارتی حیثیت دے اور سرکاری طور پر ریگولیٹ کرنے کا راستہ تیار کرے، اس طرح کم از کم پانی کی فراہمی اور حصول کے لیے جاری جدوجہد میں غیر قانونی روش کا تو خاتمہ ہو پائے گا۔
ذوالفقار کنبھر کراچی کے واٹر جرنلسٹ ہیں اور @ZulfiqarKunbhar پر ٹوئٹ کرتے ہیں۔
یہ مضمون پہلے تھرڈ پول میں شائع ہوا جہاں سے اجازت کے ساتھ یہاں شائع کیا جارہا ہے۔