زخمی پولیس اہلکار کو علاج کیلئے منتقل کیا جارہا ہے — فوٹو: اے پی
بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے حملے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ واقعے میں تین دہشت گرد ملوث تھے، انہوں نے پہلے واچ ٹاور میں موجود گارڈ کو نشانہ بنایا اور پھر اندر اکیڈمی گراؤنڈز میں داخل ہوگئے۔
علاوہ ازیں جوابی آپریشن کی قیادت کرنے والے فرنٹیئر کور (ایف سی) بلوچستان کے آئی جی میجر جنرل شیر افگن نے بتایا کہ ’ایف سی کے آنے کے تین سے چار گھنٹے بعد صورتحال پر قابو پالیا گیا‘۔
انہوں نے بتایا کہ دہشت گرد افغانستان میں موجود اپنے ساتھیوں سے مسلسل رابطے میں تھے، تینوں حملہ آوروں نے خود کش جیکٹس بھی پہن رکھی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ’دو حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑالیا جبکہ تیسرے دہشت گرد کو سیکیورٹی اہلکاروں نے ہلاک کیا‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی گفتگو سے ایسا لگتا ہے کہ ان کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ تنظیم لشکر جھنگوی العالمی گروپ سے تھا۔
حملے کی ذمہ داری
دوسری جانب برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق شدت پسند تنظیم داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
اس بات کا اعلان بین الاقوامی کالعدم تنظیم نے اپنی ’اعماق نیوز ایجنسی‘ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کیا، داعش کی جانب سے حملہ آور تینوں دہشت گردوں کی تصاویر بھی جاری کی گئیں۔
ریسکیو آپریشن
سرفراز بگٹی نے کہا کہ پولیس ٹریننگ کالج میں تقریباً 700 کے قریب کیڈٹس موجود تھے جن میں سے زیادہ تر کیڈٹس کو بحفاظت بازیاب کرالیا گیا۔
جوابی کارروائی میں اندھیرے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ زخمیوں کو ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولنس کالج کے اندر آتی جاتی رہیں ، اس دوران کئی ہیلی کاپٹرز بھی فضاء میں گشت کررہے تھے۔
جائے وقوعہ پر موجود پولیس اور سول انتظامیہ کے اہلکاروں نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حملے کے دوران کئی زور دار دھماکے بھی سنائی دیے۔
کم سے کم 65 زخمیوں کو سول ہسپتال لایا گیا جن میں سے پانچ کو گولیاں لگیں جبکہ ان میں سے تین کی حالت تشویشناک بتائی گئی۔
واضح رہے کہ پولیس ٹریننگ کالج سریاب روڈ پر واقع ہے جو کہ کوئٹہ کے حساس ترین علاقوں میں سے ایک ہے اور اس علاقے میں شدت پسند تقریباً ایک دہائی سے سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے آرہے ہیں۔
کالج کا رقبہ تقریباً ایک ایکڑ ہے اور یہ مرکزی کوئٹہ شہر سے تقریباً 13 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
حملہ آوروں نے شال پہن رکھی تھیں
ایک عینی شاہد نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے تین دہشت گردوں کو براہ راست بیرکس میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔
اس نے بتایا کہ ’دہشت گرد شال اوڑھے ہوئے تھے اور انہوں نے اچانک فائرنگ شروع کردی جس کے بعد ہم سڑھیوں اور خارجی راستے کی جانب بھاگنے لگے‘۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک سینئر عہدے دار نے بتایا کہ حملہ آوروں نے ٹریننگ سینٹر پر پانچ مختلف سمتوں سے فائرنگ کی۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ دو حملہ آور واچ ٹاور کے گارڈ کو ہلاک کرکے مرکزی دروازے سے داخل ہوئے جبکہ ایک حملہ آور کمپاؤنڈ کی پچھلی دیوار کود کر اندر آیا۔
ایس ایس پی آپریشنز محمد اقبال نے بتایا کہ ’دو حملہ آور مرکزی دروازے سے داخل ہوئے‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تین میں سے ایک حملہ آور کی خود کش جیکٹ پھٹ سکی جس کی لاش سینٹر کے احاطے میں ملی۔
ہسپتالوں کی سیکیورٹی سخت
مزید کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے کوئٹہ کے ہسپتالوں کے باہر سیکیورٹی کے غیرمعمولی اقدامات کئے گئے بالخصوص 8 اگست کو دہشت گردوں کی جانب سے سول ہسپتال کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لیے خصوصی اقدامات کئے گئے۔
ادھر صوبائی حکام کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد کوئٹہ کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے عملے کو فوری طور پر طلب کرلیا گیا۔
وزیراعظم کی پولیس کالج پر حملے کی مذمت
وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد قوم کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے صوبائی اور وفاقی حکام کو ہدایات جاری کیں کہ وہ اس حملے میں ملوث افراد کو جلد از جلد بے نقاب کرکے انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔
بعد ازاں وزیر اعظم نواز شریف کوئٹہ پہنچے، جہاں انہوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ہمراہ سول اسپتال میں کوئٹہ حملے کے زخمیوں کی عیادت کی۔
وزیر اعظم نے ڈاکٹرز کو ہدایت کی کہ زخمیوں کو علاج کی بہترین سہولتیں فراہم کی جائیں۔
نواز شریف نے کوئٹہ میں امن عامہ کے حوالے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی بھی صدارت کی۔
امریکا کی مذمت
دوسری جانب امریکا نے بھی کوئٹہ حملے کی مذمت کی، اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکا مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔
انہوں نے حملے میں ہلاک ہونے والے اہلکاروں کے لواحقین سے تعزیت جبکہ زخمی ہونے والے اہلکاروں کے ساتھ ہمدردی کا اظہا رکیا۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی کوئٹہ آمد
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق پولیس ٹریننگ کالج حملے کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف کوئٹہ پہنچے جبکہ ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اور ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) میجر جنرل ندیم ذکی منج بھی ان کے ہمراہ تھے۔
آرمی چیف واقعے میں زخمی ہونے والے کیڈٹس کی عیادت کی جبکہ واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی نماز جنازہ میں بھی شرکت کی۔
واضح رہے کہ رواں برس کوئٹہ میں دہشت گردی کے مختلف واقعات رونما ہوئے، 28 جون 2016 کو کوئٹہ میں فائرنگ کے 2 مختلف واقعات میں 4 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
8 اگست کو کوئٹہ سول ہسپتال کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 70 افراد ہلاک اور 112 سے زائد زخمی ہوئے تھے، ہلاک ہونے والوں میں ڈان نیوز کا کیمرہ مین بھی شامل تھا جبکہ اکثریت وکلا کی تھی جو بلوچستان بارکونسل کے صدر انور بلال کاسی کے قتل کی خبر سن کرہسپتال پہنچے تھے۔
13 ستمبر 2016 کو کوئٹہ کے علاقے سریاب روڑ پر پولیس ٹریننگ کالج کے قریب دھماکا ہوا تھا جس میں 2 پولیس اہلکار ہلاک اور 8 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
اس کے علاوہ پولیس ٹریننگ کالج ماضی میں 2008 اور 2006 میں بھی دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں آیا تھا جہاں کالج کے میدان میں راکٹ فائر کئے گئے تھے۔
صوبہ بلوچستان میں مختلف کالعدم تنظیمیں، سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث رہی ہیں جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے صوبے میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں اضافہ ہوا ہے۔