پاکستان

اسلام آباد دھرنا: 'فوجی مداخلت کی ضرورت نہیں پڑے گی'

2014 کے دھرنے میں بھی آرمی چیف سے 'ثالثی' کی درخواست نہیں کی گئی اور مستقبل میں بھی اس کی نوبت نہیں آئے گی، لیگی رہنما

اسلام آباد: حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما طارق فضل چوہدری کا کہنا ہے کہ 2 نومبر کو اسلام آباد دھرنے سے کوئی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوگی جس میں فوج سے 'ثالثی' کا کردارادا کرنے کی درخواست کی جائے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے طارق فضل چوہدری کا کہنا تھا 'مجھے نہیں لگتا کہ 2014 والے دھرنے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے 'ثالثی' کی درخواست کی گئی تھی اور نہ ہی ایسا کرنے کی مستقبل میں نوبت آئے گی'۔

انھوں نے کہا کہ پہلے کی طرح حکومت تمام اقدامات کررہی ہے اور انہیں یقین ہے کہ تحریک انصاف اسلام آباد کو بند نہیں کروا سکے گی کیونکہ وہاں کی تاجر برداری اس فیصلے کی حمایت کے لیے تیار نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ احتجاج کرنا تحریکِ انصاف کا آئینی حق ہے، لیکن دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ کسی دارالحکومت کو بند کردیا جائے۔

لیگی رہنما نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے احتجاج کے مفاد میں عام شہریوں سے ان کا آئینی حق نہ چھینیں۔

مزید پڑھیں: فوج کے 'ثالث' بننے کے پیچھے چوہدری نثار

یاد رہے کہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف 2014 میں ہونے والے تحریک انصاف کے اسلام آباد دھرنے کے دوران ان خبروں نے جنم لیا تھا کہ حکومت نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے حکومتی اور احتجاجی جماعت کے درمیان مذاکرات کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔

اگرچہ اُس وقت خود وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران فوج سے مدد حاصل کرنے سے متعلق خبروں کی تردید کی تھی، لیکن حکومت کو جھٹکا اُس وقت لگا تھا جب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا کہ درحقیقت حکومت نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے احتجاجی جماعتوں سے مذاکرات کے لیے 'سہولت' فراہم کرنے کے لیے کہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فوج کا ثالثی جاری رکھنے کا فیصلہ

آئی ایس پی آئی کے اس بیان کے بعد حکومت کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان آگے آئے اور انہوں نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اپنے ذاتی سیاسی ایجنڈے کے لیے فوج کو استعمال کررہے ہیں۔

تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کرچکی ہے اور ایسے میں تمام نظریں حکومت کی طرف لگی ہیں کہ وہ اس بار کیا حکمتِ عملی اختیار کرے گی۔

خیال رہے کہ وزیراعظم نواز شریف ایک روز قبل ہی مسلم لیگ (ن) کے پارٹی انتخابات کے دوران کافی سخت انداز میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ کوئی کنٹینر پر احتجاج کرے یا سڑک پر انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی واضح کرچکے ہیں کہ وہ پاناما لیکس کی تحقیقات تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔

وزیراعظم کا یہ جارحانہ رویہ ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آیا ہے جب تحریک انصاف پاناما لیکس کی آزادانہ تحقیقات اور ملک سے کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ لے کر 2 نومبر کو اسلام آباد میں دھرنا دینے جارہی ہے۔

یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لاء فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔

یہاں پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

اس سلسلے میں وزیر اعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم اس کمیشن کے ٹی او آرز پر حکومت اور حزب اختلاف میں اب تک اتفاق نہیں ہو سکا۔

تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ حکومت پاناما لیکس کی آزادانہ تحقیقات کروانے کے لیے اپوزیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) کو تسلیم کرے۔